السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نمازِ جمعہ سے قبل وعظ و نصیحت و سیاسی گفتگو اور تقریر کو صحیح خطبہ جمعہ قرار دینا کسی صحیح دلیل سے ثابت ہے ؟ جب کہ نبیﷺ سے اور سلف صالحین سے خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں ثابت ہے۔ اپنی اپنی مختلف زبانوں میں خطبہ جمعہ دینا کیونکر جائز و سنت ہے؟ جب کہ پوری دنیا میں نماز صرف عربی میں ہوتی ہے اس کے علاوہ جائز نہیں تو یہاں ردّ و بدل کس دلیل سے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمعہ کا خطبہ غیر عربی زبان میں دینا جائز و درست ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’ کَانَت لِلنَّبِیِّ ﷺ خُطبَتَانِ ، یَجلِسُ بَینَهُمَا یَقرَأُ القُراٰنَ، وَ یُذَکِّرُ النَّاسَ۔‘ (صحیح مسلم، بَابُ ذِکرِ الخُطبَتَینِ قَبلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِیهِمَا مِنَ الجَلسَةِ،رقم:۸۶۲)
یعنی نبیﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے۔ ان کے درمیان بیٹھتے۔ ان میں آپ قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔
ظاہر ہے کہ تذکیر اسی زبان میں ہو گی جس کو سامع سمجھتا ہو۔ اسی حکمت و مصلحت کے پیشِ نظر اﷲ عزوجل نے انبیاء عليهم السلام کو ہم زبان لوگوں میں مبعوث فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم ...﴿٤﴾... سورة ابراهيم
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا۔ تاکہ انھیں(احکامِ الٰہی) کھول کھول کر بتادے۔‘‘
مزید آنکہ لفظِ خطبہ بھی خطاب کا متقاضی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ خطیب کے بالمقابل ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو اس کی بات اور گفتگو کا اِدراک و شعور رکھتے ہوں۔ ورنہ ساری بات چیت لاحاصل، اور بے فائدہ اور جانور کے گلے میں ڈھول لٹکانے کے مترادف ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب خطیب مقامی لوگوں کی زبان کو محوِگفتگو بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا تصورِ خطبہ بلا سامع ( خطبہ کا تصور بغیر سننے والے کے) ناممکن ہے۔ اس میں عدد وہی شرط ہے جو اقامتِ جماعت میں ہے۔
’اَلاِثنَانِ فَمَا فَوقَهُمَا جَمَاعَةٌ‘(صحیح البخاری،بابٌ: اثنَانِ فَمَا فَوقَهُمَا جَمَاعَةٌ،قبل رقم:۶۵۸)
یعنی دو فما فوق (اور دو سے اوپر) جماعت ہے۔
بالفرض اگر کوئی خطیب اپنے سامنے چوپائے باندھ کر جوہرِ خطابت دکھاتا رہے تو اس کا نام خطبہ نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ فہم مفقود ہے۔ پھر حالتِ خطبہ میں نبیﷺ کی صفات میں وارد ہے کہ آواز بلند ہوجاتی، غصہ سخت ہو جاتا اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ گویا آپ فوجِ دشمن سے ڈرانے والے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب خطیب کی توجہ کامرکز سامع فہیم ہو۔
نیز خطبہ جمعہ کو نماز پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں کہ جیسے نماز بغیر عربی کے نہیں پڑھی جاسکتی اسی طرح خطبہ بھی بلا عربی نہیں ہونا چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں مناجات مقصود ہے جب کہ خطبہ تذکیرکے لیے ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے:
’ إنَّ هٰذِهِ الصَّلَاةَ لَا یَصِحُّ فِیهَا مِن کَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هِیَ التَّسبِیحُ وَالتَّکبِیرُ وَ قِرَائَةُ القُراٰنِ ‘(صحیح مسلم،بَابُ تَحرِیمِ الکَلَامِ فِی الصَّلَاةِ، وَنَسخِ مَا کَانَ مِن إِبَاحَتِهِ، رقم:۵۳۷)
یعنی ’’نماز میں بات چیت درست نہیں کیونکہ نما زصرف تسبیح، تکبیر اور قرأتِ قرآن کانام ہے۔‘‘
باقی رہا سلف صالحین کا عمل تو اس بارے میں عرض ہے کہ سلف میں مختلف قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں۔ بعض عدمِ جواز کے قائل ہیں اور بعض بامر مجبوری جواز کے قائل ہیں اور اگر بالفرض عمل نہ بھی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کے نظائر (مثالیں) موجود ہیں مثلاً: خیر القرون کی جملہ تصانیف بزبان عربی تھیں مدت بعد یہ سلسلہ مختلف زبانوں میں منتقل ہو گیا۔ حتی کہ کلامِ الٰہی کے تراجم و تفاسیر غیر عربی میں ہونے لگ گئے۔لہٰذا دلائل کا اصل محور کتاب و سنت ہے نہ کہ عمل کرنے والے کا عمل۔ سو اس کی وضاحت ہو چکی، مزید آنکہ اس کے کچھ عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔مثلاً :
1 ۔ اسلامی سلطنت کے غلبہ کی وجہ سے لوگوں نے زیادہ تر عربی زبان ہی اختیار کر لی تھی یا کم از کم اگر نطق نہیں تو فہم ضرور رکھتے تھے۔ اس بناء پر سلف نے غیر عربی میں تالیفات کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی، یہی وجہ خطبۂ جمعہ کی بھی ہو سکتی ہے۔
2 ۔ اس زمانے میں امامِ جمعہ اور عید چونکہ امراء ہوتے تھے۔ ممکن ہے ان کے خیال میں بہتر یا ضروری خطبہ عربی میں ہو اور جس کے نزدیک مخاطب کا لحاظ ضروری ہے ان کو امارت (حکومت کرنے ) کا اتفاق نہ ہو سکا ہو۔
3 ۔عربی زبان کا تحفظ مقصود تھا کہ کہیں غیر زبانوں سے مل کر اپنا مقام نہ کھو جائے اور جب قواعد و ضوابط تالیفی شکل میں منضبط ہو گئے تو اجازت کی صورت نکل آئی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب