السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا خطبہ جمعتہ المبارک میں سورۃ ’’ق‘‘مکمل یا اس کی کچھ آیات پڑھنا ضروری ہیں۔کیا اس کے بغیر خطبہ جمعہ خلافِ سنت ہوگا ؟ صحیح حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟ صحیح مسلم میں اُم ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’ یَقْرَؤُهَا کُلَّ یَوْمِ جُمُعَةٍ عَلَی الْمِنْبَرِ، إِذَا خَطَبَ النَّاسَ‘(صحیح مسلم، بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ،رقم۸۷۳)
کہ نبی کریمﷺ ہر جمعہ جب لوگوں کو خطبہ دیتے تو اس سورۃ کی تلاوت فرماتے،
اس حدیث کا مفہوم کیا ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث کے تحت علامہ صنعانی رحمہ اللہ ’’سبل السلام ‘‘میں فرماتے ہیں کہ ‘‘اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ ہر جمعہ کے خطبہ میں سورۃ ق کی تلاوت کرنا مشروع ہے۔ علماء نے کہا کہ اس سورۃکو اختیار کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس میں بعث، موت، سخت قسم کے مواعظ اور شدید تنبیہات کا بیان ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خطبہ میں قرآن کا کچھ حصہ پڑھناچاہے اور اس پر اجماع ہے کہ سورۃ ’’ق‘‘مکمل یا ا س کا بعض حصہ خطبہ میں پڑھناواجب نہیں‘‘(۱۳۹/۳)
اور آپ ﷺ کا اس سورۃ کی عادت اپنانا وعظ و نصیحت میں دل پسند انداز کو اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وعظ کو بار بار لوٹایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں ’’جمعہ‘‘سے مراد وہ جمعے ہیں جن میں اُمّ ہشام شریک تھیں۔( المرعاۃ:۳۱۰/۲)اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عورت پر ویسے بھی جمعہ فرض نہیں اور ماہواری کے ایام میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں۔اس لئے وہ تمام جمعوں میں شرکت ہی نہیں کرسکتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب