السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسجد میں جمعہ کے روز امام تین خطبے سناتے ہیں، پہلے خطبے کوتقریر کہتے ہیں۔ جو تقریباً ڈیڑھ بجے تک جاری رہتا ہے اور دو خطبے کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں اور نماز میں بہت چھوٹی سورت پڑھتے ہیں اور نماز جلدی جلدی ختم کرتے ہیں۔ بیٹھ کر ایک خطبہ اور دو خطبے کھڑے ہو کر پڑھنا،اس کا جواب قرآن و حدیث کے مطابق ارسال فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دراصل بات یہ ہے کہ حنفی مذہب میں خطبۂ جمعہ غیر عربی زبان میں ناجائز ہے اور عامۃ الناس چونکہ عربی زبان کو سمجھنے سے قاصرہیں۔ اس بناء پر انھوں نے خطبۂ جمعہ سے قبل مقامی زبان میں تقریر نامی بدعت جاری کی، جس کا شریعتِ اسلامیہ میں قطعاً کوئی وجود نہیں۔ اس کے ایجاد کا سبب یہ تھا، کہ اہلِ حدیث مساجد میں مقامی زبانوں میں خطبہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام کا رُجحان اس کی طرف ہو گا جس کی بات کو وہ سمجھ پائیں اور حنفیوں کے ہاں خطبۂ جمعہ غیر عربی میں غیر درست ہے، لہٰذا لوگوں کی دلجوئی اور توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرنے کے لیے تقریر کی بدعت کو شروع کیا گیا ۔ جمعے کے خطبے صرف دو ہیں۔ تیسرے کا کوئی وجود نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین میں تفقہ کی توفیق بخشے۔(آمین)
پھر جمعہ کی نماز میں قرأتِ مسنونہ یعنی مخصوص سورتوں کی تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ جس طرح کہ صحیح روایات میں تصریح ہے۔ حنفی مذہب میں اس کا بھی التزام نہیں۔ نیز نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’ إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ‘(صحیح مسلم،بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ،رقم:۸۶۹)
یعنی ’’آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ چھوٹا کرنا، اس کی فقاہت کی علامت ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا نماز کو مختصر کرنے کے بجائے قرأت میں طوالت ہونی چاہیے۔ پھر قیام، رکوع، سجود اعتدال وغیرہ نہایت اطمینان سے ادا ہونے چاہئیں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑھتا ہے، کہ حنفی مذہب میں نماز میں اطمینان بھی ضروری نہیں۔
اصل بات یہ ہے، کہ جب تک انسان دائرۂِ تقلیدِ شخصی سے آزاد نہ ہو، اتباعِ سنت کا صحیح جذبہ موجزن ہونا محال ہے۔
یہ بھی یاد رہے اصل یہی ہے، کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر دیا جائے۔ حنفی بیٹھ کر تقریر اس لیے کرتے ہیں کہ یہ جمعہ سے غیر متعلقہ شے ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ یَھدِی مَن یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّستَقِیم﴾(البقرۃ:۱۴۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب