السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عرض ہے کہ بندہ کو ایک اہلحدیث مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا موقع ملا، ساڑھے بارہ بجے پہلی اذان ہوئی پونے ایک بجے امام صاحب نے تقریر شروع کردی۔ ساتھ ہی لوگوں نے سنتیں قبل از جمعہ والی پڑھ کر تقریر سننا شروع کردی دو بجے اذان ہوئی۔ امام صاحب نے صرف ایک ہی خطبہ پڑھا یعنی درمیان میں بیٹھے نہیں بعد میں ایک آدمی نے اقامت کہی مگر الفاظ دہرائے نہیں بلکہ ’’اﷲ اکبر‘‘ کے سوا تمام الفاظ صرف ایک ہی بار ادا کیے، بعد میں جماعت کھڑی ہو گئی کیا یہ طریقہ صحیح ہے ؟ اگر صحیح ہے تو ثبوت کے ساتھ جواب دیں۔ کیا خطبہ دو حصوں میں نہیں ہونا چاہیے ؟ کیا اقامت کے الفاظ کو لوٹایا نہیں جاتا اگر نہیں تو کیا جو ایسے کرتے ہیں وہ کس دلیل کی بناء پر کرتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمعہ کی ادائیگی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ خطیب کے منبر پر جلوہ افروز ہونے کے وقت اذان کہی جاتی ہے، پھر خطیب دو خطبے پڑھتا ہے۔ دونوں کے درمیان بیٹھ کر وقفہ کیا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ بعض اہلِ علم نے سورۂ اخلاص کی تلاوت کے بقدر کیا ہے۔ بعد از فراغت خطبۂ ثانیہ اور پھراقامت کہی جاتی ہے۔ راجح مسلک کے مطابق اس کے تمام کلمات اکہرے ہیں سوائے ’’اﷲ اکبر‘‘ اور ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ کے۔ وہ دو دو دفعہ ہیں، پھر امام دو رکعت نماز پڑھاتا ہے جن میں مخصوص سورتوں ’’الأعلٰی، الغاشیہ یا الجمعہ، المنافقون‘‘ کا بالترتیب اہتمام ہونا چاہیے۔
یاد رہے اگر منبری اذان سے قبل عثمانی اذان کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اس کا مقصود قبل از وقت لوگوں کو اطلاع دینا ہے۔ تاکہ نمازی جمعہ کے لیے بروقت مسجد میں پہنچ سکیں اور جہاں تک پہلی سنتوں کا تعلق ہے تو جمعہ سے قبل مخصوص سنتیں نہیں، البتہ مطلق نوافل حسبِ استطاعت پڑھے جا سکتے ہیں۔
یہ ہے رسول اﷲﷺکے خطبے اور نماز کی کیفیت۔ اس کے علاوہ مزعومہ (غیر مسنون) طریقہ جو بھی ہو وہ مردود ہے۔ اس کا مرتکب مبتدع (بدعتی) ہے۔
صحیح حدیث میں ہے:
’ مَن اَحدَثَ فِی اَمرِنَا هٰذَا مَا لَیسَ مِنهُ فَهُوَ رَدٌّ ۔‘( صحیح البخاری بَابُ إِذَا اصطَلَحُوا عَلَی صُلحِ جَورٍ فَالصُّلحُ مَردُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب