السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جمعے کی جماعت کے لیے امام کے علاوہ ایک آدمی کافی ہے یا دو ہونے چاہییں؟ شیخ ابن باز رحمہ اللہ وغیرہ اہل علم تین افراد کے جو قائل ہیں اس کی کیا حیثیت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بات یہ ہے، کہ اقامت ِ جمعہ کے لیے کسی عدد کی شرط نہیں ، شرع میں جماعت کا قیام کم از کم امام اور مقتدی سے چوں کہ حاصل ہو جاتا ہے، اس لیے اسی عدد سے جمعہ کی اقامت بھی جائز ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:
’’ بَابُ اثنَانِ فَمَا فَوقَهُمَاجَمَاعَةٌ ‘‘ پھر مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت:
’ إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَاَذِّنَا ، وَ اُقِیمَا ، ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمَا اَکبَرُکُمَا‘(صحیح البخاری،بابٌ: اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ، رقم:۶۵۸) سے استدلال کیا ہے، کہ جماعت کا وجود امام اور مقتدی سے حاصل ہو جاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے، کہ جماعت کم از کم امام اور مقتدی سے حاصل ہو جاتی ہے۔مقتدی چاہے آدمی ہو یا بچہ یا عورت۔‘‘( فتح الباري:۱۴۲/۲)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ وَ لَم یَأتِ نَصٌ مِن رَسُولِ اللّٰهِﷺ بِأَنَّ الجُمُعَةَ لَا تَنعَقِدُ إِلَّا بِکَذَا وَهٰذَا القَولُ هُوَ الرَّاجِحُ عِندِی ‘(نیل الأوطار:۲۴۷/۳)
’’اقامت جمعہ کے لیے بطورِ نص رسول اﷲ ﷺسے کوئی عدد ثابت نہیں۔ میرے نزدیک یہی قول راجح ہے۔‘‘
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جو عدد ذکر فرمایا ہے، اس کی بناء اس بات پر ہے، کہ استماعِ خطبہ کے لیے سامعین کا عدد ہونا چاہیے۔ لیکن ظاہرِ نصوص پہلے مسلک کا مؤید ہے۔ (کَمَا تَقَدَّمَ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب