السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جمعہ کے دن زوال ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمعہ کے دن زوال کا اعتبار نہیں۔ اس کی دلیل وہ صحیح احادیث ہیں جن سے بدونِ اعتبار زوالِ اقامت جمعہ کا جواز ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو!’’إرواء الغلیل(۶۲/۳)، عون المعبود(۴۲۱/۱ تا۴۲۳)
نیز سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے:
’ أَنَّهٗ کَرِهَ الصَّلٰوة نِصفَ النَّهَارِ إِلَّا یَومَ الجُمُعَةِ وَ قَالَ إِنَّ جَهَنَّمَ تُسُجَرُ إِلَّا یَومَ الجُمُعَةِ، قَالَ أَبُو دَاؤد: وَ هُوَ مُرسلٌ مُجَاهِد اکبر من ابی الخلیل و ابو الخلیل لم یسمع عن ابی قتادة ‘(سنن أبی داؤد، بَابُ الصَّلَاةِ یَومَ الجُمُعَةِ قَبلَ الزَّوَالِ،رقم:۱۰۸۳)
یعنی ’’نبیﷺ نے ما سوا جمعہ کے نصف النہار کو نماز پڑھنا مکروہ سمجھا ہے۔ فرمایا جمعہ کے ما سوا جہنم کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے۔‘‘
روایت ِ ہذا اگرچہ ضعیف ہے لیکن المعروفہ میں دیگر روایات اس کی مؤید ہیں۔ ان میں بھی ضعف ہے لیکن سابقہ روایت کے ساتھ ملانے سے قوت حاصل ہو جاتی ہے۔ حافظ ابن قیم نے ’’زاد المعاد‘‘ میں جمعہ کے خصائص بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ جمعہ کا خاصہ یہ ہے کہ زوال کے وقت فعل نماز امام شافعی اور ان کے موافقین کے نزدیک جائز ہے اور ہمارے شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی کو پسند فرمایا ہے اور ابو داؤد کی مرسل روایت کو دیگر دلائل سے تائید حاصل ہے اور امام شافعی نے اس کو اس سے تقویت دی ہے۔ ثعلبہ ابی مالک سے منقول ہے کہ نبیﷺ کے عام اصحاب جمعہ کے دن نصف النھار کو نماز پڑھتے تھے۔
صاحب ’’ العون‘‘ نے مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اختتام پر فرمایا ہے:
’ وَالحَاصِلُ أَنَّ صَلَاةَ الجُمُعَةِ بَعدَ الزَّوَالِ ثَابِتَةٌ بِالأَحَادِیثِ الصَّحِیحَةِ الصَّرِیحَةِ غَیرُ مُحتَمِلِ التَّاّوِیلِ وَ قَوِیَّةٌ مِن حَیثُ الدَّلِیلِ وَ أَمَّ قَبلَ الزَّوَالِ فَجَائِزٌ أَیضًا ‘ (وَاللّٰهُ اَعلَم) (۴۲۲/۱)
’’حاصل بحث یہ ہے کہ نمازِ جمعہ زوال کے بعد صحیح صریح غیر محتمل اور قوی روایات سے دلیل کے اعتبار سے ثابت ہے اور جہاں تک زوال سے پہلے کا تعلق ہے سو یہ بھی جائز ہے۔ (واﷲ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب