السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کو ایک موذی بیماری بواسیر ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی وضوکے بعد اسی نماز میں وضواور کپڑے میں شک ہو جاتا ہے۔ بوجہ مجبوری امامت بھی کرانی پڑتی ہے اور مجبوری بھی رہتی ہے کہ دوسرا کوئی امام بھی نہیں۔ کیا ایسا شخص نماز جمع کرکے پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ جمع تقدیم بھی جائز ہے یا نہیں؟ پھر ان مقتدیوں کا کیا ہو گا؟ نیز نماز جمع کرتے ہوئے سنت کا کیا حکم ہے ؟ مقامی کے لیے اور مسافر کے لیے پوری تفصیل بحث ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بواسیر میں مبتلا انسان مستحاضہ پر قیاس کرتے ہوئے جمع تاخیر کر سکتا ہے۔ اس امر کی تصریح سنن ابوداود کے ’بَابُ مَن قَالَ تُجمَعُ بَینَ الصَّلٰوتَینِ ‘ میں موجود ہے۔
جمع تقدیم کی اجازت نہیں۔ علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَ فِی الحَدِیثِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّهٗ لَا یُبَاحُ جَمعُ الصَّلَاتَینِ فِی وَقتِ أَحَدِهِمَا لِلعُذرِ۔ إِذ لَو أُبِیحَ لِلعُذرِ لَکَانَتِ المُستَحَاضَةُ أَولٰی مَن یُّبَاحُ لَهَا ذٰلِكَ وَ لَم یُبَح لَهَا ذٰلِكَ بَل أَمَرَهَا بِالتَّوقِیتِ کَمَا عَرَفتَ‘سبل السلام:۱۰۲/۱
اس حالت میں مقتدیوں کو چاہیے کہ اپنا کوئی اور امام مقرر کرلیں جو ان کو بروقت نماز پڑھائے۔ جہاں شرعاً نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ہو وہاں سنتیں معاف ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جس میں ہے کہ آپﷺ نے مدینہ میں نمازوں کو جمع کیا تھا، سے استدلال کیا گیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب