السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
۱۔موسم کی خرابی کی بنا پراذان میں کون سے لفظ اور کتنی مرتبہ کہنے چاہئیں ؟
۲۔دورانِ بارش کی صورت میں دو نمازیں جمع ہوسکتی ہیں یانہیں ؟
۳۔جمع کی اس صورت میں سنتیں ادا کرنا پڑیں گی یا نہیں ؟
۴۔عورتیں گھر میں مردوں کی طرح مذکورہ مسئلہ پرعمل کرسکتی ہیں یانہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ ایسی صورت میں الصلاۃ فی الرحال یا
’ اَلَا صَلُّوْا فِی الرِّحَالِ‘(صحیح البخاری،بَابُ الرُّخصَةِ فِی المَطَرِ وَالعِلَّةِ أَن یُصَلِّیَ فِی رَحلِهِ ،رقم:۶۶۶) یا ’ صَلُّوا فِیْ بُیُوْتِکُمْ‘(صحیح البخاری، بَابُ الرُّخصَةِ إِن لَم یَحضُرِ الجُمُعَةَ فِی المَطَرِ ،رقم:۹۰۱) جیسے الفاظ کہے جائیں ۔ حَیَّعَلتین کا بدل یا اس سے ملحق ہونے کی بنا پر بظاہر گنتی ان جیسی ہوگی، یعنی دودو دفعہ۔ ابن عمر رحمہ اللہ کی حدیث کے مطابق اذان کے بعد بھی یہ کلمات کہنے کا جواز ہے ، البتہ ایسی شکل میں بظاہر ایک دفعہ ہی کافی ہے۔
۲۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بارش کی وجہ سے جمع جائز ہے۔ نیل الاوطار میں اس پربحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ بھی جمع کرلیتے تھے جو سنت کے بڑے متبع تھے۔ جہاں شرعاً جمع کرنے کی اجازت ہو وہاں سنتیں معاف ہیں ، چنانچہ ابن عباسؓ کی حدیث میں مدینہ میں جمع کرنے کا ذکر ہے اور سنتیں نہیں پڑھیں ، صرف ظہرو عصر کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور مغرب وعشا کی سات رکعتیں پڑھی ہیں اور اس حدیث سے بارش میں جمع کرنے کا استدلال کیاجاتاہے۔(فتاویٰ اہلحدیث:جلد۲ ص۲۷۸)
۳۔ اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔
۴۔ بارش میں نمازیں جمع کرنا ایک شرعی عذر ہے جس کے لئے مسجد کا وجود شرط نہیں لہٰذا ایسی صورت میں عورتیں بھی گھر میں نمازیں جمع کرسکتی ہیں ۔ ملاحظہ ہو، مجموع فتاویٰ شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ (ج۴ص۴۷۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب