السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نمازِ قصر کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی رخصت پندرہ دن تک ہے، بعض کی رائے میں اس کی رخصت تین دن ہے، جب کہ بعض کا خیال یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اس کی مقدار مقرر ہی نہیں ہے، ہمیں اس کے بارے میں ٹھوس اور تفصیلی جواب فراہم فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہلِ علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ مسافر کتنے روز تک کسی جگہ اقامت اختیار کر کے قصر نماز پڑھ سکتا ہے۔ مختلف اقوال میں سے راجح بات یہ ہے کہ مسافر قریباً چار روز تک قصر کرے، اگر زیادہ مدت قیام کی نیت ہو تو پوری نماز ادا کرے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر چار ذوالحجہ کو نبیﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور آٹھ تاریخ کو نکلے۔
ان دنوں مکہ میں آپ ﷺ کا قیام عزم بالجزم (پختہ ارادے سے) تھا، اس کے علاوہ دیگر روایات جن میں مختلف اعداد کا ذکر ہے، وہ تردد(شک) پر محمول ہیں۔ ان سے عزم وجزم کے ساتھ کسی ایک جگہ قیام کا اظہار نہیں ہوتا، اس لیے ایسی صورت میں (یعنی جب قیام کی مدت متعین نہ ہو) بلا تحدیدِ ایام(دنوں کی تعیین کے بغیر) قصر پڑھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا کسی معقول عارضے کے بغیر بہ حالتِ اقامت قصر نماز پڑھے جانا شکوک وشبہات سے خالی نہیں، جب کہ حدیث میں ہے:
’ دَع مَا یُرِیبُكَ إِلٰی مَا لَا یُرِیبُكَ‘ (صحیح البخاری،بَابُ تَفسِیرِ المُشَبَّهَاتِ، سنن الترمذی،رقم:۲۵۱۸،مصنف ابن ابی شیبه:۱۳۳۶)
یعنی مشکوک کام چھوڑ کر یقینی کو اختیار کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب