سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(977) کیا طلبہ کا اقامتی جگہ پر نمازِ قصر کرنا درست ہے ؟

  • 24986
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 642

سوال

(977) کیا طلبہ کا اقامتی جگہ پر نمازِ قصر کرنا درست ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے کچھ اہلِ حدیث بھائی جو کہ طالبِ علم ہیں۔ ایک مسجد میں عرصہ سے رہتے ہیں اور قصر نماز پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مسافر ہیں۔ ان کی مدتِ اقامت چھ ماہ سے زیادہ ہے۔ جب مسجد میں امام بن کر نماز پڑھتے ہیں تو بھی قصر پڑھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں تشویش پیدا ہوتی ہے کہ یہ لوگ کیوں چار کی بجائے دو رکعت ہی مسلسل پڑھتے ہیں؟ تراویح کی طرح نماز کو بھی کم کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ سفر کے لیے مدت کا کوئی تعین ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہلِ علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ مسافر کتنے روز کسی جگہ اقامت اختیار کرکے قصر پڑھ سکتا ہے ۔ مختلف اقوال میں سے احتیاطی بات یہ ہے کہ مسافر تین یا چار روز تک قصر کرے اور اگر زیادہ مدت قیام کی نیت ہو تو پوری پڑھے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ’’حجۃالوداع‘‘ کے موقع پر چار ذوالحجہ کو نبی ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ تاریخ کو یہاں سے نکلے ان دنوں مکہ میں آپﷺ کا قیام عزم و جزم (پختہ ارادے) سے تھا۔ اس کے علاوہ دیگر روایات جن میں مختلف اعداد کا ذکر ہے، یہ تردّد(غیر یقینی حالت) پر محمول ہیں۔ ان سے عزم و جزم کے ساتھ کسی ایک جگہ قیام کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس صورت میں بلا تحدیدِ ایام (دنوں کی تعیین کے بغیر) قصر پڑھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا بلا معقول عارضہ بحالتِ اقامت (بغیر کسی عذر کے مقیم ہونے کی حالت میں) فعل قصر کو اختیار کیے رکھنا شکوک و شبہات سے خالی نہیں جب کہ حدیث میں ہے:

’ دَع مَا یُرِیبُكَ اِلٰی مَا لَا یُرِیبُكَ ‘صحیح البخاری،بَابُ تَفسِیرِ المُشَبَّهَاتِ،( سنن الترمذی،رقم:۲۵۱۸، سنن النسائی،بَابُ الحَثُّ عَلَی تَرکِ الشُّبُهَاتِ،رقم:۵۷۱۱)

یعنی شکی شئے کو چھوڑ کر غیرشکی کو اختیار کرنا چاہیے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:794

محدث فتویٰ

تبصرے