السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسافر کتنے دن تک قصر کر سکتا ہے؟اور قصر ، سفر کا ارادہ کرتے ہی یعنی گھر سے نکلنے کے بعد ہی شروع ہو جاتی ہے یا اس کی کوئی حد ہے کہ اتنے میل سے شروع ہو گی؟ کتنے دن تک سفر میںقصر کر سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتا دیں نوازش ہو گی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسافر جب کسی جگہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا عزم رکھتا ہو تو نماز پوری پڑھے۔ جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے ، کیونکہ رسول اﷲﷺ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ۴/ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور آٹھ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اور ان ایام میں آپ دوگانہ پڑھتے رہے۔ یہ قیام نیت اور عزم و جزم کے ساتھ طے شدہ تھا۔ اس سے کم قیام کی صورت میں قصر کرنا افضل ہے ، اگر پوری نماز پڑھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اگر کسی نے لمبے سفر پر جانا ہوتو اپنی رہائشی حدود سے نکل کر دوگانہ شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی بناء پر۔ اگر کسی نے نو کوس کی مسافت تک جانا ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے۔ اس حدیث میں اگرچہ تین کوس اور نو کوس شک کے ساتھ آیا ہے ، لیکن احتیاطاً نو کوس پر نمازِ دوگانہ پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ نو کوس میں تین کوس آجاتے ہیں۔
مسافر کی مستقل طور پر اگر کسی جگہ ٹھہرنے کی نیت نہ ہو تو کسی حد بندی کے بغیر قصر ہو سکتی۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی پختہ نیت نہ کرے۔ قصر کر سکتا ہے ، خواہ کئی سال گزرجائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب