السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے شوہر روزانہ ملازمت کے سلسلے میں آنے جانے کا ۲۰۰ کلو میٹر سفر طے کرتے ہیں۔ صبح نمازِ فجر کے بعد روانہ ہوتے ہیں اور عصر سے پہلے گھر پہنچتے ہیں۔ ظہر کی نماز قضاء ادا کرتے ہیں۔ اب آپ یہ واضح کریں کہ وہ نمازِ ظہر اور عصر قصر کرکے پڑھیں؟ رسالہ میں آپ نے ایک سائل کو ۲۵ کلو میٹر پر نمازِ قصر کرنے کا فرمایا ہے، لیکن جو یہ کہا جاتا ہے کہ پندرہ دن کی نیت ہو تو قصر کر سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ آپ کے شوہر سفر کے دوران نمازِ ظہر قصر کر سکتے ہیں۔اور عصر کے وقت وہ چونکہ گھر تشریف لے آتے ہیں اس لیے نماز عصر وہ پوری ادا کریں گے اور اگر کسی وقت راستے میں عصر کا وقت بھی آجائے تو ظہر کی طرح اسے بھی دوگانہ پڑھا جا سکتا ہے۔ بوقتِ ضرورت ظہر و عصر میں جمع تقدیم و تاخیر کا بھی جواز ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ایک جگہ مستقل اقامت کے بغیر جب تک آدمی سفر میں ہے وہ قصر کر سکتا ہے۔ اگرچہ کئی سال گزر جائیں۔( سنن ترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی کَم تُقصَرُ الصَّلاَۃُ ،رقم:۵۴۸) اور اگر کسی جگہ بہ نیت و ارادۂ مستقل چند یوم ٹھہرنے کا پروگرام ہوتو کتنے روز قصر ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اہلِ علم کے بہت سارے اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول پندرہ روز کا بھی ہے، لیکن سنداً یہ حدیث کمزور ہے۔ (سنن أبی داؤد،بَابُ مَتَی یُتِمُّ المُسَافِرُ؟،رقم:۱۲۳۱)
صحیح بات یہ ہے کہ بایں صورت قریبًا چار روز تک قصر ہو سکتی ہے، کیونکہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر رسول اﷲﷺ چار ذوالحجہ کو مکہ میں داخل ہوئے تھے اور آٹھ تاریخ کو نکل گئے تھے۔ پھر جب تک آدمی حالت ِ سفر میں ہووہ قصر کر سکتا ہے۔ میلوں سے اس کی کوئی حد بندی نہیں۔ البتہ بعض اہلِ علم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کی بناء پر ابتدائِ قصر کے لیے احتیاطاًنوکوس بیان کیے ہیں۔۲۵ کلو میٹر کا ذکر میرے جواب میں نہیں تھا۔ بلکہ یہ سائل کے سوال میں تھا۔ میں نے صرف اتنی مسافت پر قصر کا جواز بیان کیا ہے۔ حصر (تحدیر) مقصود نہیں تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب