سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(957) جائے ملکیت میں نمازِ قصر کرنے کا کیا حکم ہے ؟

  • 24966
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 630

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کا اپنے آبائی گاؤں( واقع ضلع میانوالی) میں اپنا ذاتی مکان ہے۔ وہیں ساتھ ہی اس کے والدین کا بھی گھر ہے۔ زید کے والدین وفات پا چکے ہیں۔ زید بسلسلۂ ملازمت گھر سے دُور رہا اور اب وہ لاہور میں اپنے بیٹے کے ساتھ مقیم ہے۔ میانوالی والا مکان مقفل پڑا ہے ۔ زید اور اس کے بچوں کا اس آبائی گاؤں میں جا کر رہنے بسنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ البتہ خوشی یا غمی کے موقع پر جب کبھی میانوالی جانا ہوتو وہ اس مکان میں قیام کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں زید اور اس کے اہل خانہ میانو الی میں ( اس مکان یا گاؤں میں) نماز قصر پڑھیں یا پوری ۔ مزید برآں زید کا ایک مکان ضلع بھکر میں بھی ہے ۔ جہاں بالآخر( جلد یا بدیر) جا کر رہنے کا خیال ہے وہاں نماز کے بارے میں کیا حکم ہو گا؟ مزید یہ کہ نماز قصر کتنے دن تک پڑھی جا سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جائے مِلک(اپنی ملکیت والی جگہ یا مقام) میں نماز کا اتمام کیاجائے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ( الاعتصام، شمارہ:۴۱،جلد نمبر:۴۲ ۱۹۹۰ئ) مستقل کسی جگہ ٹھہرنے کے عزم کے ساتھ قریباً چار یوم تک قصر پڑھی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ نبیﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر ۴ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور ۸ تاریخ کو منیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان أیام میں آپ دوگانہ پڑھتے رہے اور یہ قیام بہ نیت عزم وجزم تھا۔ اس سے زیادہ دنوں کی فیصلہ کُن دلیل نہیں مل سکی۔ البتہ حالت تردّد میں بلا عزم اور پختہ ارادہ کے بغیر جب تک انسان سفر میں ہے بلا تحدید أیام قصر ہو سکتی ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:785

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ