السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صلوۃ الحاجۃ پڑھنے کا طریقہ کیا ہے اور اس میں کیا کچھ پڑھا جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’صلوۃ الحاجۃ‘‘ المعروف ’’صلاۃِ إستخارہ‘‘ پڑھنے کاطریقۂ کار یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی ضرورت درپیش ہو، تو دو رکعت نماز غیر مکروہ اوقات میں فرضوں کے علاوہ بہ نیت استخارہ پڑھے۔ امام نووی رحمہ اللہ کا کہنا ہے، کہ دو نوں رکعتوں میں(فاتحہ کے بعد) بالترتیب ’’سورۃ الکافرون‘‘ اور ’’سورۃ الاخلاص‘‘ کی تلاوت کرے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے، کہ ان میں توحید و اِخلاص کا بیان ہے، اور مستخیر(استخارہ کرنے والا) اس شے کا محتاج ہے۔ لیکن حافظ عراقی فرماتے ہیں: مجھے اس اَمر کی دلیل معلوم نہیں ہو سکی۔ ممکن ہے انھوں نے فجر کی سنتوں یا مابعد مغرب کی دو رکعتوں پر قیاس کیا ہو۔ پھر حافظ عراقی کا کہنا ہے: مناسب یہ بھی ہے، کہ آیت کریمہ:﴿ وَ رَبُّکَ یَخلُقُ مَا یَشَاءُ وَ یَختَارُ…﴾ اور آیت ﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّ لَا مُؤمِنَةٍ﴾ کی تلاوت کی جائے ۔( واﷲ أعلم) بظاہر اختیار ہے ،کیونکہ تقیید کی کوئی واضح مستند دلیل نہیں ہے ۔ پھر بعد از فراغت یا تشہد کے آخر میں یہ دعا پڑھے:
’ اَللّٰهُمَّ اِنِّی أَستَخِیرُكَ بِعِلمِكَ، وَأَستَقدِرُكَ بِقُدرَتِكَ ، وَ أَسأَلُكَ مِن فَضلِكَ العَظِیمِ ، فَاِنَّكَ تَقدِرُ، وَلَا أَقدِرُ ، وَ تَعلَمُ وَ لَا أَعلَمُ، وَ أَنتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ. أَللّٰهُمَّ اِن کُنتَ تَعلَمُ اَنَّ هٰذَا الأَمرَ ( اس مقام پر ضرورت کا اظہار بول کر یا دل میں ہونا چاہیے) خَیرٌ لِّی فِی دِینِی، وَ مَعَاشِی، وَ عَاقِبَةِ أَمرِی، فَاقدُرهُ لِی، وَ یَسِّرهُ لِی، ثُمَّ بَارِك لِی فِیهِ، وَ إِن کُنتَ تَعلَمُ أَنَّ هٰذَا الأَمرَ (اس مقام پر بھی ضرورت کا اظہار کرے) شَرٌّ لِّی، فِی دِینِی، وَ مَعَاشِی، وَ عَاقِبَةِ أَمرِی، فَاصرِفهُ عَنِّی، وَاصرِفنِی عَنهُ، وَاقدُر لِیَ الخَیرَ حَیثُ کَانَ۔ثُمَّ أَرصِنِی بِهٖ‘ (صحیح البخاری ،بَابُ الدُّعَاءِ عِندَ الِاستِخَارَةِ، رقم:۶۳۸۲،سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاءَ فِی صَلَاةِ الِاستِخَارَةِ،رقم:۱۳۸۳)
پھر (دِلی) میلان کے مطابق عمل کر گزرے۔ مزید خواب یا اِنشراحِ صدر کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔ علماء کے اختلافات میں سے بظاہر ترجیح اس بات کو معلوم ہوتی ہے ( واﷲ أعلم) اور بالخصوص ’’صلوۃ الحاجۃ‘‘ کی صراحت ایک دوسری روایت میں یوں ہے، کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: جس کو اﷲ تعالیٰ یا کسی انسان سے کوئی حاجت ہو، تو اسے چاہیے، کہ کامل مکمل وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرے، بعد ازاں اﷲ عزوجل کی تعریف و ثناء اور نبیﷺ پر درود پڑھے، پھر درج ذیل دعا پڑھے:
’ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ، سُبحَانَ اللّٰهِ رَبِّ العَرشِ العَظِیمِ، وَالحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ. أَسأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحمَتِكَ ، وَ عَزَائِمَ مَغفِرِتِكَ، وَالغَنِیمَةَ مِن کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِن کُلِّ اِثمٍ، لَا تَدَع لِی ذَنبًا إِلَّا غَفَرتَهٗ ، وَ لَاهَمًّا إِلَّا فَرَّجتَهٗ ، وَلَاحَاجَةً هِیَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَیتَهَا، یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ۔‘( سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاءَ فِی صَلَاةِ الحَاجَةِ ،رقم: ۱۳۸۴)،(سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاء َ فِی صَلاَةِ الحَاجَةِ،رقم:۴۷۹) و قال الترمذی: هٰذا حدیث غریب
لیکن حدیث ہذا کی سند میں راوی فائد بن عبد الرحمن بن أبی الورقاء ضعیف ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے حاکم کے تعاقب میں فرمایا ہے:’’ بِأَنَّهٗ مَترُوكٌ. فَالحَدِیثُ ضَعِیفٌ‘‘ البتہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الذاکرین‘‘ میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’أمالی‘‘ میں اس کے دیگر طُرُق بھی ذکر کیے ہیں، لیکن وہ بھی کمزور ہیں۔ ہاں یہی روایت ’’مسند احمد‘‘ میں حضرت ابو الدرداء سے مختصر بیان ہوئی ہے۔ اس کی سند صحیح ہے۔ اس کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
’ قَالَ سَمِعتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ یَقُولُ : مَن تَوَضَّأَ فَأَسبَغَ الوُضُوءَ، ثُمَّ صَلّٰی رَکعَتَینِ یُتِمُّهُمَا۔ أَعطَاهُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ مَا سََأَلَ مُعَجَّلًا ، اَو مُؤَخَّرًا‘(مسند احمد ،رقم:۲۷۴۹۷)
یعنی ’’حضرت ابوالدردائ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: کہ جس نے کامل وضو کیا۔ پھر دو رکعتیں مکمل کیں۔ جلدی یا بدیر اﷲ عزوجل اس کی طلب پوری کرے گا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب