سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(923) صلوٰۃ الاستسقاء میں دعاء کے وقت ہاتھوں کی کیفیت

  • 24932
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3187

سوال

(923) صلوٰۃ الاستسقاء میں دعاء کے وقت ہاتھوں کی کیفیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بارش کے لیے جو نماز(استسقاء) پڑھی جاتی ہے اس کی دعا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر مانگی جاتی ہے یا زمین کی طرف ہاتھ کرکے مانگی جاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبیﷺ نے بارش کی دعا اُلٹے ہاتھ کی ہے۔ چنانچہ  صحیح مسلم میں بروایت ثابت عن انس رضی اللہ عنہ  مروی ہے:

’ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ استَسقٰی فَاَشَارَ بِظَهرِ کَفَّیهِ إِلَی السَّمَآءِ ‘(صحیح مسلم، بَابُ رَفعِ الیَدَینِ بِالدُّعَاء ِ فِی الِاستِسقَاء ِ،رقم:۸۹۵)

یعنی ’’رسول اﷲﷺ نے بارش طلب کی، تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کی پُشت سے آسمان کی طرف اشارہ کرکے دعا فرمائی۔‘‘

اور سنن ابو داؤد میں بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے ہی روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ:

’ کَانَ یَستَسقِی هٰکَذَا، وَ مَدَّ یَدَیهِ۔ وَ جَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا یَلِی الاَرضَ، حَتّٰی رَأَیتُ بَیَاضَ إِبطَیهِ ‘(سنن ابی داؤدبَابُ رَفعِ الیَدَینِ فِی الِاستِسقَاءِ ،رقم:۱۱۷۱)

’’رسول اﷲﷺ اس طرح بارش طلب کرتے تھے اور پھر انھوں نے خود اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور ہتھیلیوں کو زمین کی طرف کرلیا یہاں تک کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔‘‘

گویا کہ ہاتھوں کی اس کیفیت سے حالات کے منقلب ہونے (بدلنے) کی طرف اشارہ ہے یا مسئول کی صفت کی طرف اشارہ ہے، کہ بادل زمین کی طرف اُتر جائیں۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’رفعِ بلاء کی ہر دعا میں سنت طریقہ یہ ہے، کہ داعی فوراً دونوں ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرے اور جب کسی شے کا طالب ہو، تو اس صورت میں ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔‘‘

لیکن بظاہر احادیث سے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ مندرجہ بالا کیفیت اس صورت میں اختیار کی جائے، جب کہ ’’صلوٰۃ استسقائ‘‘ کا اہتمام ہو۔ عام حالات میں مثلاً خطبۂ جمعہ وغیرہ میں بارش کی دعا کی جائے، تو ہاتھ اُلٹے کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ’’قصۃ الاعرابی‘‘ ’’دیہاتی کے معبد‘‘میں اس امر کی تصریح موجود نہیں، کہ آپﷺ نے خطبہ کے دوران اُلٹے ہاتھ دعا کی ہو۔

اس بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ  کے تراجم و ابواب بھی عام ہیں:

’ بَابُ رَفعِ النَّاسِ أَیدِیَهُم مَعَ الاِمَامِ فِی الاِستِسقَاءِ، اور ’بَابُ رَفعِ الاِمَامِ یَدَهُ فِی الاِستِسقَاءِ ‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:765

محدث فتویٰ

تبصرے