السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صبح کی اذان کے بعد سنتوں سے پہلے دو رکعت نفل نماز ’’تحیۃ الوضوئ‘‘ یا ’’تحیۃ المسجد‘‘ کا کوئی ثبوت ہے ، کوئی اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صبح کی اذان کے بعد دو رکعتوں کی ادائیگی ’’تحیۃ المسجد‘‘ وغیرہ سے بھی کافی ہو جاتی ہے۔ لہٰذاعلیحدہ پڑھنے کی ضرورت نہیں یہ اس طرح ہے جیسے ’’حَجۃُ الودَاع‘‘ کے موقع پر نبیﷺ نے کعبہ میں داخل ہو کر طواف شروع کردیا تھا۔ ’’تحیۃ المسجد‘‘ کی نماز بھی اس میں شامل ہو گئی تھی۔ البتہ اگر کوئی شخص صبح کی دو رکعتیں گھرمیں ادا کرکے مسجد میں آتا ہے اور اقامتِ صلوٰۃ میں ابھی کچھ وقفہ ہے تو وہ عمومِ حدیث
’اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ المَسجِدَ…‘( صحیح البخاری،بَابُ إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ المَسجِدَ فَلیَرکَع رَکعَتَینِ قَبلَ أَن یَجلِسَ،رقم:۴۴۴) کی بناء پر دو رکعت پڑھ کر بیٹھے۔ اگر کہا جائے کہ نبی اکرمﷺ سے فجر کی اذان کے بعد قبل از فرائض صرف دو رکعت ثابت ہیں۔ (تحیۃ المسجد کے نوافل کا جواز اس پر اضافہ ہو گا۔ جو درست نہیں) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب ’’اِنشَاءً‘‘ یعنی مسجد میں بیٹھا ہوا کھڑے ہوکر نوافل پڑھنے لگ جائے۔ لیکن اگر سببی طور پر ادا کیے جائیں تو پھر جائز ہے، جیسے باہر سے آنے والا ’’تحیۃ المسجد‘‘ ادا کرتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب