السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
موجودہ ملکی اور ملی حالات کے پیشِ نظر ہم نے نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام عرصہ تقریباً ۲ ماہ سے کر رکھا ہے۔ ایک دوست کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ایک بار ثابت ہے لہٰذا غیر محدود مدت کے لیے اس کا التزام درست نہیں۔ التماس ہے کہ رہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حالات اور واقعات کے مطابق ’’دعاے قنوت‘‘ کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ مقصود بالذات فتنہ کا قلع قمع ہو اورمسلمانانِ عالم کے مصائب و مشکلات میں تخفیف ہو۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر ایک ماہ تک نمازِ عشاء کی رکعت میں رکوع کے بعد اور سجدہ کرنے سے پہلے ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام،عیاش بن أبی ربیعہ رضی اللہ عنہم اور دیگر ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے حق میں نجات کی دعا مانگتے، اور کفار کے لیے سخت نقمت (سزا) کی۔ جو یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کی صورت میں ہو، التجا کرتے۔ ایک دن آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور دعاے قنوت نہ کی۔ میں نے اس کا سبب پوچھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’وَ مَا تَرَاهُم قَد قَدِمُوا‘(صحیح مسلم، بَابُ استِحبَابِ القُنُوتِ فِی جَمِیعِ الصَّلَاةِ إِذَا نَزَلَت بِالمُسلِمِینَ نَازِلَةٌ،رقم:۶۷۵)
’’تم نے دیکھا نہیں،کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری دعا کو شرفِ قبولیت بخشا ہے اور وہ سب نجات پاکر مدینہ میں آگئے ہیں۔‘‘
سنن ابوداؤد کے اصل الفاظ یوں ہیں:
’ ققَالَ أَبُوهُرَیرَةَ : وَأَصبَحَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ ذَاتَ یَومٍ ، فَلَم یَدعُ لَهُم ۔ فَذَکَرتُ ذٰلِكَ لَهٗ ۔ فَقَالَ: وَ مَا تَرَاهُم قَد قَدِمُوا ‘ (۵۴۱/۱) مع عون المعبود۔( سنن أبی داؤد،بَابُ القُنُوتِ فِی الصَّلَوَاتِ ،رقم:۱۴۴۲)
اور صحیح مسلم کے الفاظ اس طرح ہیں:
’ قَالَ أَبُوهُرَیرَةَ : ثُمَّ رَأَیتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺتَرَکَ الدُّعَاءَ بَعدُ۔ فَقُلتُ: أَرٰی رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَد تَرَكَ الدُّعَاءَ لَهُم، قَالَ: فَقِیلَ: وَ مَا تَرَاهُم قَد قَدِمُوا ؟ ‘ (۲۳۷/۱)(صحیح مسلم، بَابُ استِحبَابِ القُنُوتِ فِی جَمِیعِ الصَّلَاةِ إِذَا نَزَلَت بِالمُسلِمِینَ نَازِلَةٌ،رقم:۶۷۵)
اس واقعہ سے معلوم ہوا ،کہ اصلاً ترک دعا مصائب و تکالیف سے نجات پر موقوف ہے۔ ایک مہینہ بعد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دعاے قنوت‘‘ چھوڑی، وہ محض حالات کے پیشِ نظر تھی۔ اس سے مقصود تحدیدِ مدت نہیں۔ جس طرح کہ اصل قصہ بھی اس بات پر دال ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب