سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(898) دعاء اور قنوتِ نازلہ میں غیر مسنون دعائیں پڑھنا

  • 24907
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1258

سوال

(898) دعاء اور قنوتِ نازلہ میں غیر مسنون دعائیں پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قنوت نازلہ کے متعلق ایک استفسار پہلے بھی بھیجا تھا جس کا جواب مل گیا تھا۔ جزاکم اﷲ خیراً۔ اب ایک صاحب نئے سرے سے اس بات پر معترض ہیں کہ آپ مسنون دعاؤں کے ساتھ غیر ماثور دعائیں نہ کیا کریں۔ مثلاً میں یہ مندرجہ ذیل دعائیں بھی مانگتا ہوں جو میں نے مختلف علماء ہی سے سنی ہیں۔

٭        اَللّٰهُمَّ عَلَیكَ بِحُکَّامِنَا المُنَافِقِینَ۔

٭         اَللّٰهُمَّ دَمِّرهُم تَدمِیرًا۔

٭         اَللّٰهُمَّ بَدِّدهُم تَبدِیدًا۔

٭         اَللّٰهُمَّ خُذهُم أَخذَعَزِیزٍ مُقتَدِرٍ۔

٭         اَللّٰهُمَّ عَلَیكَ بِالیَهُودِ وَالهُنُودِ وَالمُشرِکِینَ۔

٭         اَللّٰهُمَّ انصُرِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِكَ فِی کُلِّ مَکَانٍ۔

٭         اَللّٰهُمَّ انصُرهُم نَصرًا عَزِیزًا۔

٭         اَللّٰهُمَّ افتَح لَهُم فَتحًا مُّبِینًا۔ اَللّٰهُمَّ افتَح لَهُم فَتحًا قَرِیبًا۔

٭         اَللّٰهُمَّ انجِ إِخوَانَنَا المُسلِمِینَ ۔

٭         اَللّٰهُمَّ اکفِنَا شُرُورَ اَعدَائِنَا بِمَا شِئتَ۔

اور ان کے ساتھ ایک آدھ دعا اور بھی حسب موقع ملا لیتا ہوں۔ اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔ کہ ان دعاؤں کی گنجائش ہے یا نہیں؟ معترض مذکور کا کہنا ہے، کہ مسنون دعائیں ہی جامع مانع ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی زائد دعا کی حاجت نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعا کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ منقول و مأثور کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن ’’قنوت نازلہ‘‘ کے بارے میں کچھ وُسعت معلوم ہوتی ہے۔ منصوص کے علاوہ حسب حال، جوبھی دعایہ کلمات اختیار کر لیے جائیں درست ہیں۔ کیونکہ قنوت نازلہ سے مقصود یہ ہوتا ہے، کہ مقہور و مظلوم مسلمانوں کی فتحیابی اور درندہ صفت سفاک خونخوار دشمنوں اور ظالموں کی تباہی و بربادی کے لیے دعا کی جائے۔ جس دعا سے یہ مقصد حاصل ہو، ’’قنوتِ نازلہ‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے۔

صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:

’ وَاعلَم أَنَّهٗ لَم یَثبُت فِی الدُّعَاءِ فِی قُنُوتِ النَّازِلَةِ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ ، وَلَا عَنِ السَّلَفِ، وَالخَلَفِ دُعَاءٌ مَخصُوصٌ مُتَعَیِّنٌ لِقُنُوتِ الوِترِ، لِأَنَّهٗ مِنَ المَعلُومِ أَنَّ الصَّحَابَةَ کَانُوا یَقنُتُونَ فِی النَّوَازِلِ وَهٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّهُم مَا کَانُوا یُحَافِظُونَ عَلٰی قُنُوتٍ رَاتِبٍ وَ لِذٰلِكَ قَالَ العُلَمَاءُ: إِنَّهٗ یَنبَغِی الدُّعَاءُ فِی ذٰلِكَ بِمَا یُنَاسِبُ الحَالَ، کَمَا صَرَّحَ بِهٖ فُقَهَاءُ الشَّافِعِیَّةِ، وَالعَلَامَةُ الأَمِیرُ الیَمَانِیُّ فِی شَرحِ بُلُوغِ المَرَامِ۔ فَبِأَیِّ دُعَاءٍ وَقَعَ۔ کَفٰی۔ وَ حَصَلَ بِهِ المَقصُودُ ‘ (۲۲۰،۲۲۱/۲)

بعض اہلِ علم نے مشہور دعا ’’ اَللّٰهُمَّ اهدِنِی فِیمَن هَدَیتَ‘‘ کو قنوتِ نازلہ میں ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ  نے ’’شرح مسلم میں فرمایا ہے:

 صحیح بات یہ ہے، کہ مشارٌ الیہ دعا کا پڑھنا مستحب ہے۔ شرط نہیں ۔‘‘اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:

’ وَالصَّحِیحُ أَنَّه لَا یَتَعَیَّنُ فِیهِ دُعَاءٌ مَخصُوصٌ، بَل یَحصُلُ بِکُلِّ دُعَاءٍ۔ وَ فِیهِ وَجهٌ أَنَّهٗ لَا یَحصُلُ إِلَّا بِالدُّعَاءِ المَشهُورِ۔ اَللّٰهُمَّ اهدِنِی فِیمَن هَدَیتَ إِلٰی آخِرِهٖ ۔ وَالصَّحِیحُ أَنَّ هٰذَا مُستَحَبٌّ ، لَا شَرطٌ ‘ (۱۷۶/۵)

اور ’’سُبُل السَّلام‘‘ میں الفاظ یوں ہیں:

’ وَ مِن هُنَا قَالَ بَعضُ العُلَمَاءِ : یَسُنُّ القُنُوتُ فِی النَّوَازِلِ، فَیَدعُوا بِمَا یُنَاسِبُ الحَادِثَةَ ۔ ‘ (۱۸۵/۱)

یعنی ’’اسی بناء پر بعض علماء نے کہا ہے، کہ حوادث میں دعاے قنوت کرنا مسنون ہے۔ انسان حادثہ کے مناسب دعا کرے۔‘‘

اور صحیح مسلم (۱۷۸/۵) میں ہے:

’وَ یَدعُوا لِلمُؤمِنِینَ ، وَ یَلعَنُ الکُفَّار‘(صحیح مسلم، بَابُ استِحبَابِ القُنُوتِ فِی جَمِیعِ الصَّلَاۃِ إِذَا نَزَلَت بِالمُسلِمِینَ نَازِلَۃٌ ،رقم: ۶۷۶)،(صحیح البخاری،بَابُ فَضلِ اللَّہُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ ،رقم:۷۹۷)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی میں قنوتِ نازلہ میں مومنوں کے لیے دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے تھے۔‘‘دیگر عمومات کے علاوہ روایت ہذا کا اطلاق بھی اس امر کا مؤید ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:751

محدث فتویٰ

تبصرے