سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(896) وِتروں میں دعا کس طرح پڑھنی چاہئے تکبیر کہہ کر یا بغیر تکبیر کے ؟

  • 24905
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 573

سوال

(896) وِتروں میں دعا کس طرح پڑھنی چاہئے تکبیر کہہ کر یا بغیر تکبیر کے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وِتر میں دعا کس طرح پڑھنی چاہئے تکبیر کہہ کر یا بغیر تکبیر کے اور دُعاء ہاتھ اٹھا کر کرنی چاہئے یا چھوڑ کر یا سینے پر باندھ کر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعاِ قنوت سے قبل تکبیر کی بابت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کوئی شئی ثابت نہیں۔ البتہ امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب ’’الوتر‘‘(ص:۲۲۹) میں بعض آثار و اقوال ایسے ملتے ہیں، جو جواز پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا اثبات بھی مشکوک ہے۔ لہٰذا اصل یہی ہے، کہ تکبیر نہ کہی جائے۔ بالخصوص ’’رفع الأیدی‘‘ میں تکبیرِ تحریمہ کی طرح کا انداز، جسے حنفیہ اختیار کرتے ہیں، اس کی تو کوئی اصل ہی نہیں۔

نمازی قبل از رکوع دعا کی صورت میں چونکہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے، رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے، اس لیے دعا بھی اسی حالت میں ہونی چاہیے اور جہاں تک ’’دعاِ قنوت‘‘ میں ہاتھ اٹھانے کا تعلق ہے، سو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ ثابت نہیں ۔ البتہ امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب ’’الوتر‘‘ (ص:۲۳۰) میں کئی ایک آثار و اقوال ایسے موجود ہیں، جو جواز پر دال ہیں۔ صاحب ’’تحفۃ الأحوذی‘‘ اور صاحب’’المرعاۃ‘‘ اور علامہ حسین بن محسن انصاری ’’مجموعہ فتاویٰ‘‘ (ص:۱۶۰) میں، اور اسی طرح شیخی محدث روپڑی رحمہ اللہ ’’فتاویٰ اہلِ حدیث‘‘ (۲۹۲/۲) میں ’’رفع الأیدی‘‘ کے جواز کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال اس بات سے ہے کہ ’’رفع الأیدی‘‘ آداب دعا سے ہے۔ پھر ’’قنوتِ نازلہ‘‘ پر قیاس کیا ہے۔ مزید آنکہ بعض آثار بھی اس کے مؤید ہیں۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے بھی’’التلخیص‘‘ میں أسوہ ٔصحابہ رضی اللہ عنہم  کو کافی قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات مُسَلَّمَہ ہے، کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسی کوئی واضح نص موجود نہیں، جو موضوع ہذا پر فیصلہ کُن ہو۔ لہٰذا اصل عدمِ رفع(ہاتھوںکا نہ اٹھانا) ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:750

محدث فتویٰ

تبصرے