السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے شہر میں کافی عرصہ سے یہ مسئلہ اختلاف کا باعث ہے کہ نمازِ وِتر میں رکوع سے پہلے یا بعد میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا عمل ہے ؟ آیا ہم اس کو بدعت کہہ سکتے ہیں؟اگر بدعت نہیں تو اس کے جواز پر مفصل دلائل ارشاد فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قنوتِ وِتر میں ہاتھ اٹھانا بعض سلف صالحین سے ثابت ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی نے’’قیام اللیل‘‘ میں باقاعدہ بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’بَابُ رَفعِ الاَیدَی فِی القُنُوتِ‘‘ پھر اس کے تحت آثار و اقوال نقل کیے ہیں، جو ’’رفع الأیدی‘‘ پر نص ہیں۔ جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے، سو اس بارے میں عرض ہے، کہ مذکورہ آثار کی بناء پر اگر کوئی شخص وِتر کی دعاے قنوت میں ہاتھ اٹھالے، تو جائز ہے اور اگر کوئی نہ اٹھائے، تو اس پر بھی نکیر نہیں۔ مسئلہ ہذا میں دونوں پہلوؤں پر عمل کرنادرست ہے، جسے کوئی چاہے اختیار کرے۔ لیکن رفع کو بدعت قرار دینا مشکل امر ہے۔ اگرچہ جانب رجحان عدمِ رفع ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!( الاعتصام ۲۴ ذوالقعدہ ۱۴۱۴ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب