السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا وِتروں کی دعا قنوت میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قنوتِ وِتر میں ہاتھ اٹھانا بعض سلف صالحین سے ثابت ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی تصنیف ’’قیام اللیل‘‘ میں باقاعدہ عنوان قائم کیا ہے:’’بَابُ رَفع الاَیدِی فِی القُنُوتِ‘‘ پھر اس کے تحت آثار و اقوال نقل کیے ہیں، جو ’’رفع الأیدی‘‘ (ہاتھ اٹھانے) پر نص ہیں اور صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں، ان آثار پر عمل کرتے ہوئے ’’قنوتِ وِتر‘‘ میں ہاتھ اٹھانا جائز ہیں۔ جس طرح کہ وِتروں کے ما سوا ’’قنوت نازلہ‘‘ میں ہاتھ اٹھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ ہمارے شیخ الشیوخ حسین بن محسن انصاری ’’مجموعہ فتاویٰ‘‘(ص:۱۶۰)میں رقمطراز ہیں۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ’’قنوت‘‘ میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ پس ’’قنوتِ وِتر‘‘ بھی اس کی مثل ہے۔ دونوں قنوتوں میں کوئی فرق نہیںاس لیے کہ دونوں دعا ہیں۔‘‘
اسی بناء پر قاضی ابو یوسف نے کہا ہے، کہ نمازی اپنے دونوں ہاتھوں کو قنوتِ وِتر میں سینے تک اٹھائے اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف کرے ۔طحاوی اور کرخی; نے اسی مسلک کو پسند کیا ہے ۔ شامی نے کہا ہے، کہ ظاہر یہ ہے، کہ اس روایت کی بناء پر ہمہ تن پوری دعا میں ہاتھ اٹھائے رکھے۔ انتہی۔
حاصل اس کا یہ ہے، کہ ’’قنوتِ وِتر‘‘ میں ’’رفع یدین‘‘ حضرت ابن مسعود، حضرت عمر، حضرت انس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے فعل سے ثابت ہے۔ جس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’التلخیص‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں کی اقتداء ہمیں کافی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وِتر کے علاوہ ثابت ہے۔ (مرعاة المفاتیح،۲۱۹/۲)
واضح ہو کہ حنفی ائمہ قاضی ابو یوسف، طحاوی ، کرخی وغیرہ کی مذکورہ تصریہات سے معلوم ہوا، کہ وِتر کی دعا ’’قنوت‘‘ میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ اس لیے حنفیوں کو اس سے انکار کی چنداں گنجائش نہیں۔ مزید آنکہ اس کا اثبات حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی وارد ہے، جن پر حنفی فقہ کی بنیاد ہے۔ گویا کہ اس کا انکار حنفی فقہ کے اصل کی نفی کرنا ہے۔
پھر یہی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ جن کے متعلق حنفیہ بڑے شدُّ و مد سے مسئلہ ’’بیس تراویح‘‘ میں (بفرضِ صحت) فعل عمر رضی اللہ عنہ کو حجت تسلیم کرتے ہوئے تائید میں حدیث’
(عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ‘سنن ابن ماجه،بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ المَهدِیِّینَ،رقم:۴۲) پیش کیا کرتے ہیں۔ مقامِ غور ہے، کہ اس قاعدے کا انطباق تو زیرِبحث مسئلہ پر بھی ہوتا ہے۔ پھر اس سے انکار کیوں؟ امید ہے جذبات کی رَو سے بالا تر ہو کر حنفیہ موضوعِ بحث مسئلہ پر غور فرمائیں گے۔
جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے ، سو اس بارے عرض ہے، کہ مذکورہ آثار کی بناء پر اگر کوئی شخص وِتر کی دعا قنوت میں ہاتھ اٹھا لے تو جائز ہے اور اگر کوئی نہ اٹھائے، تو اس پر بھی نکیر نہیں۔
مسئلہ ہذا میں دونوں پہلوؤں پر عمل کرنا درست ہے۔ جسے کوئی چاہے اختیار کرے، اگرچہ جانبِ رجحان عدمِ رفع ہے۔(واﷲ اعلم بالصواب و علمہ أتم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب