السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر نماز عشاء کے ساتھ ہی وِتر پڑھ لیے جائیں تو آخر رات نفل پڑھنے کے لیے کیا طریقہ کار ہے ؟ کیا ایک رکعت پڑھ کر سجدۂ سہو کرے یا ویسے نوافل ادا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بارے میں اکثر اہلِ علم کا مسلک یہ ہے، کہ آدمی جتنے نوافل وغیرہ پڑھنے چاہے پڑھ سکتا ہے۔ نقضِ وِتر کی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، کہ
’ لَا وِترَانِ فِی لَیلَةٍ ‘ (سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی نَقضِ الوِترِ ،رقم:۱۴۳۹)،( سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ لاَ وِترَانِ فِی لَیلَةٍ ،رقم:۴۷۰)
یعنی ’’ایک رات میں دو دفعہ وِتر نہ پڑھے جائیں۔ ‘‘
روایت ِ ہذا حسن درجہ کی ہے جس کو امام احمد، ترمذی ،ابوداؤد اور نسائی رحمة الله عليه وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ بعض اہل علم نقض وتر کے قائل ہیں کہ وتر کے ساتھ ایک رکعت ملا کر اسے جفت بنا لیا جائے بعد ازاں جتنی نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے آخر میں پھر وتر پڑھ لے لیکن سجود کی ضرورت نہیں… پہلا مسلک راجح ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔ علامہ مبارکپوری شرح ترمذی میں فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک مختار بات یہ ہے کہ پہلے پڑھے ہوئے وتر کو توڑا نہ جائے کیونکہ مجھے مرفوع کوئی صحیح روایت نہیں مل سکی جس میں نقض و تر کا ثبوت ملتا ہو۔ امام ترمذی نے بھی اپنی جامع میں اسی مسلک کو اصح قرار دیا ہے اور صاحب مرعاۃ المفاتیح کے نزدیک بھی یہی مذہب راجح ہے، ملاحظہ ہو :( المرعاۃ:۲،/۲۰۴۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب