سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(869) ایک رات میں دو دفعہ وِتر پڑھنا

  • 24878
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 1460

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک رات میں دو دفعہ وِتر پڑھے جا سکتے ہیں، خاص کر آج کل آخری عشرہ میں تمام مساجد میں قیامُ اللیل ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی وجہ سے پہلے بھی وِتر ادا کر چکا ہو تو کیا دوبارہ و تر پڑھے یا چھوڑ دے؟ نیز وِتر کے بعد جو دو رکعت ادا کی جاتی ہیں۔(نفل کے طور پر) اس کا کیا جواز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح احادیث کے مطابق وِتر موصول(اکٹھے) اور مفصول (علیحدہ) دونوں طرح پڑھنے درست ہیں۔(المحلّٰی لابن حزم،۴۲/۲۔۴۸)

مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ بعض نقض(ایک رکعت نفل پڑھ کر پہلے پڑھے ہوئے وِتر کو جفت بنانا، اورپھر دوبارہ وِتر پڑھنے)کے قائل ہیں۔ ان میں سے امام اسحاق بن راہویہ ہیں اور دوسرا گروہ عدمِ نقض(پہلے وِتر کو جُفت نہ بنانا مذکورہ وضاحت کے برعکس) کا قائل ہے۔ یہ مذہب سفیان ثوری، مالک بن انس، احمد اور عبداﷲ بن مبارک رحمة اللہ عليهم کا ہے۔ اس کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَهٰذَا اَصَحُّ، لِانَّهٗ قَد رُوِیَ مِن غَیرِ أَوجُهٍ، اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ صَلّٰی بَعدَ الوِترِ‘(سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ لاَ وِترَانِ فِی لَیلَةٍ ،رقم:۴۷۹، مع تحفة الاحوذی،۵۷۶/۲، طبع مصری)

 یعنی یہی مسلک زیاہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ کئی طرق سے وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے وِتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔

اور صاحب’’ تحفہ ‘‘فرماتے ہیں:

’ وَهٰذَا هُوَ المُختَارُ عِندِی وَ لَم اَجِد حَدِیثًا مَّرفُوعًا صَحِیحًا، یَدُلُّ عَلٰی ثُبُوتِ نَقضِ الوِترِ۔ ‘

( میرے نزدیک یہی بات درست ہے۔ کیونکہ میں نے کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں پائی جو وِتر کو توڑنے کرنے پر دلالت کرتی ہو۔) واﷲ تعالیٰ أعلم( صفحہ مذکور)

وتر کے بعد نوافل جائز ہیں۔ قولی حدیث میں ہے:

’ اِجعَلُوا آخِرُ صَلٰوتِکُم بِاللَّیلِ وِترًا ‘(صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةُ اللَّیلِ مَثنَی مَثنَی، وَالوِترُ رَکعَةٌ مِن آخِرِ اللَّیلِ،رقم:۷۵۱)،( سنن ابی داؤد،رقم:۱۴۳۸)

یعنی ’’رات کی آخری نماز وِتر بناؤ ۔‘‘

اور فعلی حدیث میں ہے:

’ ثُمَّ یُوتِرُ، ثُمَّ یُصَلِّی رَکعَتَینِ، وَهُوَ جَالِسٌ ‘(صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةِ اللَّیلِ، وَعَدَدِ رَکَعَاتِ النَّبِیِّ ﷺ…الخ ،رقم:۷۳۸)

یعنی ’’پھر آپ وِتر پڑھتے۔ پھر دو رکعتیں بیٹھے ہوئے ادا کرتے۔‘‘

 فعل میں چونکہ خاصے کا احتمال ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ وِتر کے بعد نوافل نہ پڑھے جائیں اور اگر کوئی پڑھ لے تو جائز ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:738

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ