السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تہجد کے اٹھنے کے وقت ورد یعنی دس دس مرتبہ ’’اَللّٰہُ اَکبَرُ، سُبحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمدِہٖ‘‘ وغیرہ پڑھنے والی ابوداؤد کی حدیث کی اسنادی حیثیت درکار ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’سنن ابی داؤد‘‘ کی جس روایت کی سائل نے نشاندہی کی ہے، اس کو امام موصوف نے ’’بَابُ مَا یَقُولُ اِذَا أَصبَحَ‘‘ کے تحت بیان فرمایا ہے ۔صاحب’’العون‘‘ اس کی تشریح میں رقمطراز ہیں:
’ قَالَ المُنذِرِیُّ: وَ أَخرَجَهُ النِّسَائِیُّ، وَ فِی إِسنَادِهٖ بَقِیَّةُ بنُ الوَلِیدِ وَ فِیهِ مَقَالٌ ‘
یعنی امام منذری نے کہا ہے :اس روایت کو نسائی نے بھی بیان کیا ہے۔ اس کی سند میں ’’بقیہ بن ولید‘‘ راوی ہے اور وہ متکلم فیہ ہے۔‘‘
لہٰذا یہ روایت ضعیف ٹھہری۔ لیکن واضح رہے کہ نسائی کی روایت اس عِلَّت سے خالی اور صحیح الإسناد ہے، اس لیے وہ قابلِ حجت والتسلیم ہے ۔ ملاحظہ ہو! (النّسائی: باب ذکر ما یستفتح بہ القیام)اسی بناء پر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ یہ دعا اور مختلف أدعیہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’ فَکُلُّ هٰذِهِ الأَنوَاعُ صَحَّت عَنهُ ﷺ ۔ ‘(زاد المعاد،جز:۱،ص:۵۱)
یعنی یہ تمام مختلف الأنواع دعائیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سندوں سے ثابت ہیں۔
لہٰذا اس دعا کا پڑھنا بھی مسنون ثابت ہو گیا اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس پر حسن صحیح کا حکم لگایا ہے۔( سنن أبی داؤد،بَابُ مَا یُستَفتَحُ بِہِ الصَّلَاۃُ مِنَ الدُّعَاء ِ،رقم:۷۶۶،و رقم۶۹۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب