سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(853) تراویح کے بعد وِتر پڑھنے کا طریقہ

  • 24862
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-27
  • مشاہدات : 1239

سوال

(853) تراویح کے بعد وِتر پڑھنے کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں  سعودی عرب میں تراویح کے بعد وِتر پڑھنے کا طریقہ ہمارے ہندوستان کے طریقہ سے مختلف ہے۔ خاص طور پر حرم مکی و حرم مدنی میں وِتر کی نماز دو پھر ایک رکعت پڑھی جاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ لوگ تراویح کے بعد فوراً مسجد سے نکل پڑتے ہیں یا مسجد میں ہی ایک طرف تین رکعت ایک سلام اور تشہد سے پڑھتے ہیں۔ بعض اہلِ علم سے سنا ہے کہ اس طرح امام کے پیچھے نمازیں پڑھتے پڑھتے اور پھر یہ سمجھ کر وِتر نہ پڑھنا کہ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے تو یہ عمل غلط ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ امام ہی کی قیادت میں جس طرح یہ وِتر پڑھتے ہیں اسی طرح پڑھیں۔ یہ طریقہ بھی ثابت ہے دوسری طرف سے کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ طریقہ صحیح نہیں۔ تراویح تو صحیح ہے لیکن وِتر نہیں۔برائے کرم وضاحت فرمائیں کہ یہاں پر رہنے والوں کو کونسا عمل کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ عند اﷲ ماجور ہوں۔

(۲) ۱۳۸۲۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الجواب: و فی اشتراط عدم  فصلہ کما فی الارشاد من انہ لا یجوز اصلا باجماع اصحابنا الخ (شامی، ج:۱، ص:۴۴۹)کی رُو سے عند الاحناف نمازِ وِتر کی ادائیگی کا مذکور فی السوال طریقہ سے درست نہیں۔ احناف کو چاہیے کہ وِتر الگ پڑھیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ تنگ نظری پر مبنی ہے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میںوتر پڑھانے کا مروّج عمل عین سنت کے مطابق ہے۔ بلکہ افضل یہ ہے کہ وتروں میں دو رکعت اور ایک رکعت میں فاصلہ کر لیا جائے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  رات کو گیارہ رکعت پڑھتے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک وِتر پڑھتے۔ (صحیح مسلم،بَابُ صَلَاۃِ اللَّیلِ، وَعَدَدِ رَکَعَاتِ النَّبِیِّ ﷺ…الخ،رقم:۷۳۶)، (ابوداؤد،بَابٌ فِی صَلَاۃِ اللَّیلِ،رقم:۱۳۳۶، سنن ابن ماجہ، بَابُ مَا جَاء َ فِی کَم یُصَلِّی بِاللَّیلِ،رقم:۱۳۵۸)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ آپ ایک رکعت وِتر پڑھا کرتے تھے۔ دو رکعت اور ایک رکعت کے درمیان بات چیت بھی کیا کرتے تھے۔( مصنف ابن ابی شیبہ:۲۹۱/۲)، علامہ البانی نے کہا ہے کہ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ (إرواء الغلیل:۱۵۰/۲، صحیح ابن حبان) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  دو اورایک رکعت کے درمیان میں سلام سے فصل کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے۔ (فتح الباری:۳۸۶/۲)

امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ  فرماتے ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اکٹھے وِتر پڑھنے بھی ثابت ہیں۔ مگر ہمیں پسند یہ ہے کہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سائل کو یہی جواب دیا تھا اور اس لیے بھی کہ فصل والی احادیث زیادہ ثابت ہیں اور بہت سے طُرق سے مروی ہیں۔ (قیام اللیل:۲۰۴)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:729

محدث فتویٰ

تبصرے