سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(849) آٹھ تراویح کے بعد نفل نماز پڑھنا

  • 24858
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1158

سوال

(849) آٹھ تراویح کے بعد نفل نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک کی طاق رات۲۳ویں شب) کو شب بیداری اور تلاش لیلۃ القدر کے اشتیاق میں مسجد میں معتکفین اور بعض اہل محلہ نے آٹھ رکعات نمازِ تراویح ادا کرنے کے بعد کچھ دیر توقف کیا اور پھر دوبارہ قیام اللیل کی نیت سے باجماعت نوافل ۲۲ رکعات) اور تین وتر ادا کئے۔ اگلے روزانہوں نے سے بھی آئندہ طاق رات ساتھ رہنے پر اصرار کیا۔ تومیں نے اُنہیں کہا کہ قیام اللیل، تہجد اور تراویح ایک ہی عبادت کے مختلف نام ہیں اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات مابین نمازِ عشا و فجر گیارہ سے زائد رکعات ادا نہیں فرمائیں لہٰذا اسی پر اکتفا کرنا اولیٰ اور اوثق ہے،نیزمسنون عمل بہتر ہے ایک کثیر مگر غیر ثابت شدہ عمل سے۔

ساتھیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں اوریہ کہ بعض صحابہؓ سے چالیس رکعات تک ثابت ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر مزید ادا کرنا چاہے تو بات اور ہے مگر جہاں تک باجماعت قیام اللیل کی بات ہے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین  رضی اللہ عنہم  (جملہ صحابہ کرامؓ)سے زائد ثابت نہیں ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرما دیں نیز ۴۰ رکعات تک والی روایات کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرما دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیادہ محتاط مسلک یہ ہے کہ صرف ثابت شدہ گیارہ رکعات پر اکتفاکیا جائے اور تعداد میں اضافہ کے بجائے ان کو لمبے قیام کی صورت میں ادا کیا جائے جس طرح کہ احادیث سے ثابت ہے۔البتہ وتر کے بعد بسا اوقات انفرادی نوافل کا جواز ہے، جس طرح کہ صحیح مسلم وغیرہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ عام حالات میں باجماعت نوافل کو سنت ِمسلوکہ بنانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ صحابہ کرامؓ کے عمل سے زیادہ تعداد کا اثبات محل نظر ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب صلاۃ التراویح از علامہ البانی  رحمہ اللہ

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:726

محدث فتویٰ

تبصرے