سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(829) رکعات تراویح کی تعداد

  • 24838
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 669

سوال

(829) رکعات تراویح کی تعداد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماہ رمضان کے آتے ہی آٹھ اور بیس کا جھگڑا کھڑا ہو جاتا ہے خصوصاً جن مساجد میں اہلِ حدیث اور احناف مل جل کر نماز پڑھتے ہیں۔ دونوں طرف سے دلائل دیے جاتے ہیں لیکن مانتا کوئی نہیں کہا جاتا ہے کہ نوافل پر کوئی پابندی نہیں۔ بیس رکعت اس طرح پڑھ لی جائیں کہ آٹھ رکعت سنت اور باقی نفل کیا یہ درست ہے ۔ کیا نوافل کی تعداد اس طرح مقر ر کر لینا کہ نہ ان میں کمی کی جائے نہ زیادتی تو کیا وہ نفل ہی رہیں گے ان کی حیثیت فرائض یا سنت کی ہو جائے گی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  اور بیت اﷲ میںبھی۔ ۲۰ رکعت تراویح پڑھی جاتی ہیں جو دو امام پڑھاتے ہیں۔

ان کا کہنا یہ ہے کہ جب ہم اس کے دو حصے کرتے ہیں تو پھر ان کی حیثیت سنت کی نہیں رہتی بلکہ یہ نوافل بن جاتے ہیں۔ صرف احناف ہی ۲۰ رکعت تراویح سنت کرکے پڑھتے ہیں۔ برائے مہربانی سب پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔جزاکم اﷲ احسن الجزائ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل یہ ہے کہ نمازِ تراویح صرف آٹھ رکعات ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی روایت میں تصریح موجود ہے کہ :

’ مَا کَانَ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَ لَا فِی غَیرِهٖ عَلٰی اِحدَی عَشَرَةَ رَکعَةً ‘(صحیح البخاری،بَابُ فَضلِ مَن قَامَ رَمَضَانَ ،رقم:۲۰۱۳)

’’ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات ( وِتر سمیت) سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’ وَ اَمَّا مَا رَوَاهُ اِبنُ اَبِی شَیبَةَ مِن حَدِیثِ ابنِ عَبَّاسَ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ عِشرِینَ رَکعَةً وَالوِترَ فَاِسنَادُهٗ ضَعِیفٌ وَ قَد عَارَضَهٗ حَدِیثُ عَائِشَةَ هٰذَا الَّذِی فِی الصَّحِیحَینِ مَعَ کَونِهَا اَعلَمَ بِحَالِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لَیلًا مِن غَیرِهَا ‘ وَاللّٰهُ أَعلَمُ۔ فتح الباري:۲۵۴/۴

حاصل یہ کہ بیس رکعت والی روایت ضعیف ہے اور آٹھ والی صحیح ہے۔

باقی رہا آٹھ سے زائد بطورِ نوافل پڑھنے کا مسئلہ ، جائز تو ہے لیکن آپ ان کے ساتھ اس طرح شریک نہ ہوں کہ دیکھنے والے کو شبہ ہو کہ شاید یہ بھی بیس کی سنیت کے اعتقاد سے پڑھ رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ آٹھ سے فارغ ہو کر آپ گھرلوٹ جائیں۔

اور جہاں تک ائمہ حرمین کے عمل کا تعلق ہے۔ سو اس کی بنیاد غالباً مطلق نوافل پر ہے۔ اس لیے رمضان کے آخری عشرہ میں قیام اللیل کے نام پر رکعات میں اضافہ کر لیا جاتا ہے۔

یاد رہے سعودی عرب کی کئی ایک مسجدوں میں آٹھ رکعات کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ بالخصوص وہ مسجد جس میں سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ  تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔

مسئلہ ہذا پر رکعات تراویح اور تعامل صحابہ اور آٹھ رکعات سے زائد نوافل کا کیا حکم ہے ؟ بالتفصیل میرے فتوے ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور میں عرصہ سے چھپے ہوئے ہیں ان کی طرف مراجعت مفید ہے۔

اور بطورِ تصنیف لطیف ’’انوار مصابیح‘‘ مؤلفہ مولانا نذیر احمد رحمہ اللہ  کا مطالعہ فرمائیں۔ موضوع ہذاپر منفرد تالیف ہے۔ محقق مؤلف نے واقعی ناقدانہ نظر سے بحث مباحثے کا حق ادا کردیا۔ جزاہ اﷲ احسن الجزاء و جعل الجنۃ مثواہ۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:703

محدث فتویٰ

تبصرے