سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(827) آٹھ رکعت تراویح پر زیادہ نوافل کا حکم

  • 24836
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1725

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماری مسجد ہل حدیث میں ہمارے واجب الاحترام امام صاحب اور دوسرے اہل حدیث بھائی رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں گیارہ رکعت نمازِ تراویح کے علاوہ باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں درج ذیل امور پر روشنی ڈال کر عند اللہ ماجور ہوں:

۱۔         باجماعت نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟

۲۔        صورتِ مسئولہ میں گیارہ رکعت سے زاید جماعت نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں۔

۳۔        بعض اہل حدیث بھائی امام محترم کے ان نوافل پڑھانے کی وجہ سے ان کے پیچھے نمازِ فرض ادا نہیں کرتے، کیا ان کا یہ اقدام درست ہے ؟

۴۔        اگر جماعت میں اختلاف اور فتنہ کا ڈر ہو تو امام ِ محترم کو ان نوافل کو چھوڑ دینا چاہیے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اَقُوْلُ وَ بِاللّٰهِ التَّوْفِیْقِ جہاں تک نفلی نماز کی باجماعت ادائیگی کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی روایات میں جواز کی صراحت موجود ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ’بَابُ صَلٰوةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةٌ ذَکَرَهُ اَنَسٌ وَّ عَائِشَةُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ‘ یعنی نفلی نماز باجماعت پڑھنے کا جواز ، اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ ا ور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان فرمایا ہے۔‘‘ ( جلد اوّل۱۵۸)

علاوہ ازیں قصہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ  میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’اَیْنَ تُحِبُّ اَنْ اُصَلِّیْ لَكَ مِنْ بَیْتِكَ قَالَ فَاَشَرْتُ لَهٗ اِلٰی مَکَانٍ فَکَبَّرَ النَّبِیُّ ﷺ وَ صَفَّنَا خَلْفَهٗ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ‘ (ج:۱،ص۶۰) (صحیح البخاری،بَابُ إِذَا دَخَلَ بَیْتًا یُصَلِّی حَیْثُ شَاءَ أَوْ حَیْثُ أُمِرَ وَلاَ یَتَجَسَّسُ،رقم:۴۲۴)

’’یعنی اے عتبان، تو کہاں پسند کرتا ہے کہ میں تیرے گھر میں تیرے لیے (تیری وجہ سے) نماز پڑھوں ؟ عتبان رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں میں ے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تکبیر کہی اور ہمیں اپنے پیچھے صف میں کھڑا کیا۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں!‘‘

نمازِ راویح بھی از قسم نوافل ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس نماز کو چند راتیں جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔ اسی بنا پر امام ابن حجر رحمہ اللہ  نے بلوغ المرام میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی گیارہ رکعت والی روایت ’صَلٰوةُ التَّطَوُّعِ‘ کے عنوان کے تحت نقل کی ہے ، جب کہ امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاری رحمہ اللہ  نے اسے ’کِتَابُ التَّہَجُّد‘ میں ذکر کیا ہے اور بایں الفاظ باب منعقد کیا ہے:

’بَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ ﷺ بِاللَّیْلِ فِیْ رَمَضَانَ وَغَیْرِهٖ‘ (۱۵۴/۱)

واضح ہو کہ تراویح ، تہجد، قیام اللیل، صلوٰۃ اللیل چاروں ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: انوارِ مصابیح،ص:۹۰۔اگرچہ ماہِ رمضان میں تراویح کی جماعت کا اہتمام خاص ہے جو عام حالات سے استثنائی شکل ہے، تاہم مذکورہ بالا دلائل سے نوافل کی باجماعت مشروعیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی جماعت کو صرف فرضیت کے ڈر سے تر ک کیا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا:

’اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْکُمْ‘(صحیح ابن حِبَّان، ذِکْرُ خَبَرٍ سَادِسٍ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ الْوِتْرَ غَیْرُ فَرْضٍ،رقم:۲۴۱۵)

’’یعنی مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہو جائے۔‘‘ (صحیح البخاری،بَابُ تَحْرِیضِ النَّبِیِّ ﷺ عَلَی صَلاَةِ اللَّیْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَیْرِ إِیجَابٍ،رقم۱۱۲۹)

اپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے انتقال سے چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور فرضیت کا متوقع خدشہ زائل ہو گیا۔ لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اسی مسنون کام کو نئے سرے سے دوبارہ شروع کردیا۔ اس پر بدعت کا اطلاق صرف لغوی اعتبار سے ہے۔ اصطلاحی اعتبار سے نہیں!

پھر یہ بات بھی مسلّم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان چند رتوں میں وتر کے علاوہ آٹھ رکعات پڑھائی تھیں۔ اسی بناء پر اہل علم کا کہنا ہے کہ مسنون رکعات صرف آٹھ ہیں۔

۲۔        باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی آٹھ سے زائد پڑھنا چاہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

 تو اس سلسلہ میں اہل علم کے مشہور دو قول ہیں:

(۱) آٹھ سے زیادہ مطلقاً ناجائز۔

(۲) آٹھ رکعت سے زائد عام نوافل کی حیثیت میں جائز ہیں، کوئی حرج نہیں۔ جو لوگ مطلقاً آٹھ رکعات سے زائد کے ناجائز ہونے کے قائل ہیں۔

ان کا استدلال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے ان الفاظ سے ہے:

’مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَ لَا فِیْ غَیْرِهٖ عَلٰی اِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً‘

  ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان ، گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةِ اللَّیلِ، وَعَدَدِ رَکَعَاتِ النَّبِیِّ ﷺ…الخ،رقم:۷۳۶)،( ابوداؤد،بَابٌ فِی صَلَاةِ اللَّیلِ،رقم:۱۳۳۶)،( سنن ابن ماجہ، بَابُ مَا جَاء َ فِی کَم یُصَلِّی بِاللَّیلِ،رقم:۱۳۵۸)

لیکن یہ حصر غیر دائمی ہے، اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  ہی کی دوسری روایت میں تیرہ رکعتوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ مزید آنکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چار رکعتیں، ایک سلام سے پڑھتے، جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے اور کبھی دو دو رکعتوں پر سلام پھیرتے۔ کئی ایک اہل علم کے نزدیک یہ دوسری صورت افضل ہے اور پہلی صورت جائز!۔

اسی طرح کبھی وتر کی تین رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے اور کبھی دو سلام سے۔( حضرت الاستاذ محدث روپڑی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب’’ اہلحدیث کے امتیازی مسائل‘‘ کے صفحہ:۹۷،۹۸پر رقمطراز ہیں: ’’اب ان سب کے ملانے سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ آپﷺ کی تراویح یا تہجد جو کچھ تھی یہی تھی، کیونکہ عشاء سے فجر تک ساری نماز، رمضان غیر رمضان کی یہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں میں فجر کی سنتیں بھی شامل کرلی ہیں۔ا گر محض تہجد بتلانی مقصود ہوتی تو فجر کی سنتوں کی ضرورت نہ تھی، ہاں شاذ و نادر آپﷺ نے فجر کی سنتوں کے بغیر بھی تیرہ پڑھی ہیں اور اخیر عمر میں آپﷺ نے کمزوری کی وجہ سے گیارہ سے بھی کم کردی تھیں۔ مگر اکثری حالت رمضان ، غیر رمضان میں گیارہ کی تھی۔ اس لیے گیارہ ہی پر اکتفاء کیا۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ مجھے معلوم نہیں، آپﷺ نے کسی رات صبح تک قیام کیا ہو؟ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ایک مرتبہ ایک ہی آیت میں صبح کردی۔‘‘ چنانچہ یہ دونوں روایتیں مشکوٰۃ میں موجود ہیں۔ اور بعض ایسی اور بھی ہیں۔تو ان میں بھی موافقت کی یہی صورت ہے کہ شاذ و نادر ہی آپﷺصبح تک جاگے ہیں۔ ورنہ اکثری حالت آپﷺ کی یہی تھی کہ کچھ سوتے اور کچھ جاگتے۔ اس قسم کے واقعات کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  ہی سے آیا ہے کہ رمضان کے سوا کسی ماہ کے سارے روزے آپﷺ نے نہیں رکھے۔ تو علماء نے ان دونوں حدیثوں میں موافقت(یوں) کی ہے کہ شعبان کے چونکہ بہت تھوڑے دن( آپﷺ) افطار کرتے تھے، اس لیے پہلی روایت میں مبالغہ کے لیے کہہ دیا کہ سارا شعبان روزے رکھتے تھے۔ ورنہ درحقیقت رمضان کے سوا کسی مہینہ کے سارے روزے آپﷺ نے نہیں رکھے۔ ملاحظہ ہو، ترمذی،ص:۱۳۰،بَابُ مَا جَائَ نِی وِصَالِ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ۔

            پھر استاذی المکرم نے صفحہ ۱۰۴ پر لکھا ہے: ’’پس ثابت ہوا کہ اصل تراویح آٹھ ہی ہیں۔ہاں اگر کوئی نوافل زیادہ پڑھنا چاہے تو اس پر کوئی انکار نہیں، بلکہ خیر قرون میں بیس سے زیادہ پڑھی گئی ہیں۔‘‘(رواہ احمد ومسلم)

یعنی رمضان کے آخری عشرہ میں بنسبت پہلے دھاکوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عبادت میں بہت زیادہ منہمک رہتے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے:

’کَانَ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ الاَوَاخِرَ اَحْیَا اللَّیْلَ وَ اَیْقَظَ اَهْلَهٗ وَ شَدَّ الْمِئْزَرَ‘ (متفق علیه) (صحیح البخاری،بَابُ العَمَلِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ،رقم:۲۰۲۴)، (صحیح مسلم،بَابُ الِاجْتِهَادِ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ،رقم:۱۱۷۴)

یعنی ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات خود بھی جاگتے ، اپنے اہل کو بھی بیدار رکھتے اور عبادت میں مصروف رہتے۔‘‘

تیسری روایت میں ہے:

’فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِكَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ‘(صحیح مسلم، بَابُ فَضلِ السُّجُودِ وَالحَثِّ عَلَیهِ،رقم:۴۸۹)

یعنی نوافل کثرت سے پڑھ۔‘‘

ان احادیث سے دوسرے گروہ کے لیے استدلال ہو سکتا ہے کہ آٹھ رکعات تراویح کے علاوہ عام نوافل کی حیثیت سے اضافہ کا کوئی حرج نہیں۔ زائد رکعات کی کوئی حد بندی نہیں، جس طرح کہ جمعہ سے پہلے نوافل کی کوئی حد بندی نہیں:

’فََصَلّٰی مَا کُتِبَ لَهٗ‘( صحیح البخاری،بَابٌ: لاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ یَوْمَ الجُمُعَةِ، رقم:۹۱۰) اسی بنا ء پر سلف صالحین سے مختلف عدد منقول ہیں۔ اور جو انتالیس تک بیان کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا درست ہے کہ آٹھ رکعت مسنون ہیں اور مذکورہ نصوص کی بناء پر مزید پر جواز کا اطلاق ہے۔ نہ کہ سنیت کا۔ اس کے باوجود احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ مسنون رکعت پر اکتفاء کی جائے اور قیام اللیل کو لمبا کردیا جائے۔ چنانچہ ایک موقعہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جس کا قیام لمبا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،بَابُ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ،رقم:۷۵۶،سنن ابن ماجه،رقم:۱۴۲۱)

۳۔        صرف اس فعل کی بنا پر امام مذکور کی اقتداء میں فرض نماز ادا نہ کرنا غیر درست ہے۔

۴۔        امام صاحب کے اس فعل سے اگر فتنہ کا ڈر ہو تو انھیں وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے خانہ کعبہ کی ترمیم کے سلسلہ میں ادا کیا تھا۔یعنی عزم کے باوجود بناء کعبہ میں تصرف کا ارادہ ترک کردیا اور فرمایا:

’یَا عَائِشَةُ لَوْ لَا اَنَّ قَوْمَكِ حَدِیْثٌ عَهْدِهِمْ قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ بِکُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْکَعْبَةَ فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَیْنِ‘(صحیح مسلم،بَابُ نَقضِ الکَعبَةِ وَبِنَائِهَا،رقم:۱۳۳۳)

یعنی اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی… ابن الزبیر نے کہا، یعنی کفر سے اسلام میں نئی نئی داخل نہ ہوئی ہوتی، تو میں کعبہ کے دو دروازے بنا دیتا!‘‘

اس پر امام بخاری رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:

’بَابُ مَنْ تَرَكَ الْاِخْتِیَارِ مَخَافَةَ اَنْ یَّقْصُرَ فَهْمُ النَّاسِ فَیَقَعُوْا فِیْ اَشَدَّ مِنْهُ‘ (ج:۱،ص:۲۴)

یعنی بعض ایسی چیزوں کو چھوڑ دینے کا باب، جو لوگوں کی سمجھ نہ آسکنے کی بناء پر ان کے لیے فتنہ کا باعث بن جائیں۔‘‘

رہے مقتدی ، تو ان کو چاہیے کہ اپنے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کے فعل کو نمونہ بنائیں، جب کہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں رباعی(چار رکعتی) نماز کو قصر کی بجائے مکمل پڑھا تو حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے اس مقام پر قصر کے قائل ہونے کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی اقتداء میں نماز مکمل پڑھی۔ لیکن فرمایا:

’فَلَیْتَ حَظِّیْ مِنْ اَرْبَعِ رَکَعَاتٍ رَکْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ‘(صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًی،رقم:۱۰۸۴)

یعنی ’’کاش، میرا حصہ یہ ہو کہ چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی قبول ہوں۔‘‘

اس پر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ یہ کیوں؟ آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:اَلْخِلَافُ شَرٌّ‘سنن أبی داؤد،بَابُ الصَّلَاةِ بِمِنًی،رقم:۱۹۶۰) ’’اختلاف بُری شئے ہے۔‘‘

اسی کے مشابہ قصہ، صحیح بخاری، میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے بھی منقول ہے۔ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًی،رقم:۱۰۸۴)، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ  کا یہ عقیدہ تھا کہ :

’صَلٰوةُ الْمُسَافِرِ رَکْعَتَانِ مَنْ خَالَفَ السُّنَّةَ کَفَرَ‘ ’’مسافر کی نماز دو رکعتیں ہی ہے۔ جس نے سنت کی مخالت کی ،ا س نے کفر کیا۔‘‘

پس ان واقعات کی روشنی میںامام و مقتدی ، دونوں ہی کو اس مسئلہ پر شدت اختیار نہ کرتے ہوئے اختلاف سے باز رہنا چاہیے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ جملہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا فرمائے۔آمین

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:698

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ