السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نفلی نمازوں کی نماز باجماعت جائز ہے؟ ہم اکثر اپنی شب بیداریوں میں درسِ قرآن وحدیث وغیرہ کے بعد دو رکعت نفلی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ اس کی شریعت میں اجازت ہے؟ میری نظر میں بخاری شریف کی ایک حدیث میں اس کی اجازت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نفلی نماز کو باجماعت ادا کرنا درست ہے۔ ’’صحیحین‘‘ کی روایات میں جواز کی صراحت موجود ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب منعقد کی ہے۔
’ بَابُ صَلٰوةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً ذَکَرَهٗ اَنَسٌ، وَعَائِشَةُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ ‘ (ج:۱، ص:۱۵۸)
یعنی ’’نفلی نماز باجماعت پڑھنے کا جواز، اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمایا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں قصۂ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَینَ تُحِبُّ اَن اُصَلِّیَ لَكَ مِن بَیتِكَ قَالَ فَاَشَرتُ لَهٗ اِلٰی مَکَانٍ، فَکَبَّرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَّنَا خَلفَهٗ فَصَلّٰی رَکعَتَینِ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا دَخَلَ بَیتًا یُصَلِّی حَیثُ شَاء َ أَو حَیثُ أُمِرَ وَلاَ یَتَجَسَّسُ،رقم:۴۲۴)
یعنی ’’اے عتبان! تو کہاں پسند کرتا ہے، کہ میں تیرے گھر میں تیرے لیے (تیری وجہ سے) نماز پڑھوں؟ عتبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی، اور ہمیں اپنے پیچھے صف میں کھڑا کیا۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔‘‘
پھر نمازِ تراویح بھی از قسم نوافل ہے … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو چند راتیں جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کتاب بلوغ المرام میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعت والی روایت ’’صلوۃ التطوع‘‘ کے عنوان کے تحت نقل کی ہے۔ جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کتاب التہجد میں ذکر کیا ہے اور بایں الفاظ باب قائم کیا ہے۔
’ بَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ ﷺ بِاللَّیلِ فِی رَمَضَانَ، وَغَیرِهٖ ‘ (ج:۱، ص:۱۵۴)
مذکورہ بالا دلائل سے نوافل کی باجماعت مشروعیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ لہٰذا آپ حضرات شب بیداری میں درس کے اختتام پر نوافل باجماعت ادا کرسکتے ہوں، تو جائز ہے، لیکن اس فعل کو طریقۂ مسلوکہ نہیں بنانا چاہیے۔ خطرہ ہے، کہ کہیں ابتدع کے زمرہ میں داخل نہ ہوجائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب