سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(818) کیا غیر موکدہ سنتیں چھوڑنا جائز ہے؟

  • 24827
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 568

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مالکیہ کے نزدیک ایک ہی نماز کی تین غیر موکدہ سنتیں ترک کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ کیا اس پر فتویٰ دینا درست ہے جب کہ غیر موکدہ سنتیں چھوڑنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری کتاب الزکاۃ کے آغاز میں حدیث الاعرابی کے تحت امام قرطبی رحمہ اللہ  مالکی رقمطراز ہیں:

’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ نفلی کام ترک کرنے جائز ہیں۔ لیکن ہمیشہ سنتوں کا چھوڑنا دین میں نقص کا باعث ہے، جب کہ انہیں کم تر سمجھ کر اور بے رغبتی سے چھوڑنے والا آدمی فاسق و فاجر ہے، کیونکہ اس پر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے وعید وارد ہے:

’  مَن رَغِبَ عَن سُنَّتِی فَلَیسَ مِنِّی ‘صحیح البخاری،بَابُ التَّرغِیبِ فِی النِّکَاحِ ،رقم:۵۰۶۳

’’جو میری سنت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘

’’شروع میں صحابہ اورتابعین وغیرہ سنتوں پر اسی طرح ہمیشگی کرتے تھے۔ جس طرح وہ فرائض کا اہتمام کرتے تھے۔ دونوں کے ثواب کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان میں تفریق نہیں کرتے تھے۔ یہ صرف فقہاء ِکرام کا طریقہ کار ہے، کہ انہوں نے یہ تفریق کر دی، کہ کس چیز کا لوٹانا واجب ہے؟ کس کا نہیں اور کس کام کا مرتکب سزا کا مستحق ہے اور کس کا نہیں؟‘‘ فتح الباری : ۳؍ ۲۶۵

مذکورہ تصریح سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے، کہ بعض امور کو محض ہلکا سمجھ کر ترک کر دینا نقصان دہ اور اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔لہٰذا موقع اور عمل کے تقاضوں کے مطابق اگر کسی وقت ایسا فتویٰ صادر کر دیا جائے تو بظاہر گنجائش ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:692

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ