السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو مغرب کی سنت کے بعد’’اوابین‘‘ کے نام سے چھ رکعتیں پڑھی جاتی ہیں کیا یہ مسنون ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھنے والی روایت سخت ضعیف ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ عمر بن عبد اﷲ بن ابی خثعم ’’منکر الحدیث‘‘ اور سخت ضعیف ہے۔
’ بَابُ مَا جَائَ فِی فَضلِ التَّطَوِّعِ سِتُّ رَکعَاتِ بَعدَ المَغرِبِ ۔‘
امام ذہبی نے بھی میزان الاعتدال میں فرمایا: اس کی حدیث منکر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!’’مرعاۃ المفاتیح‘‘(۲/۱۵۱،۱۵۲)
یاد رہے کہ یہ رکعات ’’صلوٰة الأوابین‘‘ کے نام سے موسوم نہیں، بلکہ ’’صلوٰة الاوابین‘‘ چاشت کی نماز کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے:’ صَلٰوةُ الاَوَّابِینَ حِینَ تَرمُضُ الفِصَالُ‘(صحیح مسلم، بَابُ صَلَاۃِ الأَوَّابِینَ حِینَ تَرمَضُ الفِصَالُ،رقم:۷۴۸) اﷲ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز اس وقت ہے، جب اونٹنیوں کے بچوں کے پاؤں سخت گرمی سے سڑنے لگیں اور حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے:
’ لَا یُحَافِظُ عَلٰی صَلَاةِ الضُّحٰی اِلَّا اَوَّابٌ۔ قَالَ وَ هِیَ صَلَاةُ الاَوَّابِینَ ‘(المستدرك علی الصحیحین للحاکم:۴۵۷/۱، رقم:۱۱۸۲)
یعنی ’’چاشت کی نماز پر مداومت صرف اﷲ کی طرف رجوع کرنے والا ہی کرتا ہے فرمایا۔ اسی کا نام اوابین کی نماز ہے۔‘‘
جب حدیث ضعیف ہے تو مسنون ہونا ثابت نہ ہوا۔ اگرچہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں کثرت ِ طُرق کی بناء پر فضائلِ اعمال میں قابلِ عمل سمجھا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب