السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس موضوع سے متعلقہ دلائل کا تتبع اور استقراء کرنے سے معلوم ہوتا ہے، کہ بعد از عصر نماز کے بارے میں وارد احادیث متعدد اقسام پر مشتمل ہیں:
۱۔ مطلقاً منع
۲۔ عصر کے بعد نماز ممنوع ہے، اِلَّایہ کہ سورج سفید اور بلند ہو۔
۳۔ عین غروب کے وقت نماز کا قصد کرنا منع ہے۔
احادیث کے بظاہر تعارض و اختلاف کی بناء پر ائمہ کرام کے مذاہب ومسالک بھی مختلف ہیں۔ میرے خیال میں ان روایات کی تطبیق و توفیق اور وجہ جمع یوں ہو سکتی ہے، کہ اصلاً عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک کا وقت مکروہ وقت کہلاتا ہے۔ تاہم جب تک سورج بلند ہو اور سفید و زرد رہے، تب تک کراہت خفیف (ہلکی) ہے۔ جس میں رواتب (مؤکدہ سنتیں) وغیرہ کی قضاء کا جواز ہے۔ جن احادیث یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے مطلقاً جواز کا پہلو مترشح ہوتا ہے، وہ بھی اسی پر محمول ہوں گی۔
یاد رہنا چاہیے، کہ کسی بھی معاملے میں جواز یا عدمِ جواز کا نظریہ اختیار کرتے وقت سبب کو ملحوظ رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ فرعی مسائل کو اس اساس پر پرکھنا چاہیے، کہ آیا ان میں بھی اس قسم کی وجوہات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ واضح ہو کہ وجہ جمع میں ادنیٰ سی مناسبت ہی کافی ہوتی ہے، جو تعارض واختلاف دور کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔
عین غروبِ آفتاب کے وقت نماز کا قصد کرنا بلا شبہ شدید ترین کراہت ہے، یہاں تک کہ بعض اہلِ علم سببی نماز (تحیۃ المسجد وغیرہ) کے جواز کے قائل ہونے کے باوجود، اس وقت انتظار میں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاکہ آدمی کراہت کی شدت سے بچ سکے۔ شیخنا علامہ البانیسوال: کا اسی پر عمل تھا۔ ویسے بھی نہی کو جواز پر مقدم سمجھا جاتا ہے۔ اس بناء پر مطلقاً جواز کی بجائے، سابقہ شروط وقیود سے مقید کر دیا جائے، تو درست ہے۔ بہر صورت علی الاطلاق عصر کے بعد نوافل کا قائل ہونا میرے نزدیک محلِ نظر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب