السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ظہر کی چار سنتوں کی طرح عصر اور عشاء کی چار چار سنتیں فرضوں سے پہلے پڑھنا ثابت ہیں؟ اگر ثابت نہیں تو پھر فرضوں سے پہلے کیا پڑھنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عصر سے پہلے چار رکعات نوافل پڑھنے ثابت ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع روایت میں ہے:
’ رَحِمَ اللّٰهُ اِمرَأً صَلَّی قَبلَ العَصرِ اَربَعًا ‘ (رواه احمد) (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی الأَربَعِ قَبلَ العَصرِ،رقم:۴۳۰)
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’سندہ حسن‘ اس کی سند حسن درجہ کی ہے اور حدیث علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرماتے ہیں:’سندہ حسن‘ ملاحظہ ہو! حواشی مشکوٰۃ:۳۶۷/۱۔۳۶۸)اور صاحب المرعاۃ نے بھی حدیث علی رضی اللہ عنہ کو قابلِ حجت قرار دیا ہے ۔(۲/۱۵۱)
اور ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ (۸۰/۱) میں حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما دن اور رات میںدس اور بارہ رکعتوں والی روایت ،جس انداز میں نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اصل ہے ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھنا سنت صحیحہ سے ثابت نہیں۔ البتہ اس وقت ’’تحیۃ المسجد‘‘ یا ’’تحیۃ الوضوئ‘‘ پڑھی جا سکتی ہے۔’بَینَ کُلِّ اَذَانَینِ صَلٰوة ‘ پر عمل ہو سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب