سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(806) ظہر کی پہلی چار رکعت اکٹھی پڑھنا

  • 24815
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 557

سوال

(806) ظہر کی پہلی چار رکعت اکٹھی پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں سعودی عرب میں اکثر لوگ ظہر کی پہلی چار رکعت اکٹھی نہیں پڑھتے بلکہ دو دو رکعت پڑھتے ہیں اور ہمیں تو کہتے ہیں کہ اکٹھی چار رکعت کا حدیث میں ثبوت نہیں۔ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری (کتاب التہجد) میں ابن عمر  رضی اللہ عنہما  کی روایت میں قبل از ظہر دو رکعتوں کا ذکر ہے۔ جب کہ اس کے متصل بعد حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی روایت میں چار کی صراحت ہے۔ الفاظ یوں ہیں:

’ کَانَ لَا یَدَعُ اَربَعًا قَبلَ الظُّهرِ  ‘(صحیح البخاری،بَابُ الرَّکعَتَینِ قَبلَ الظُّهرِ، رقم:۱۱۸۲)

اس حدیث میں بظاہر ’’وصل‘‘ کا جواز ہے۔

اس طرح عبداللہ بن سائب  رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر سے پہلے یعنی فرضوں سے پہلے زوال شمس کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے۔ (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَائَ فِی الصَّلاَۃِ عِندَ الزَّوَالِ، رقم:۴۷۸)

صاحب مرعاۃ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (ج:۲، ص:۱۵۰)

اس حدیث میں بھی چار رکعت اکٹھی پڑھنے کا جواز ہے۔ یہاں فصل کا ذکر نہ ہونا وصل کی دلیل ہے۔

علامہ ملا علی قاری حنفی نے اس سے مراد ظہر کی چار سنتیں ہی لی ہیں۔ اگرچہ بعض نے ان کا نام ’’سنۃ الزوال‘‘ رکھا ہے۔ نیز حضرت ابوایوب الانصاری کی روایت میں ’ أَربَعُ قَبلَ الظُّهرِ ، لَیسَ فِیهِنَّ تَسلِیمٌ‘ (ابوداود  وابن ماجہ) (سنن أبی داؤد،بَابُ الأَربَعِ قَبلَ الظُّہرِ وَبَعدَہَا،رقم:۱۲۷۰) کے مصرح الفاظ بھی ہیں۔ لیکن روایت ضعیف ہے۔ (واللہ اعلم)

’’تحیۃ المسجد‘‘ کا حکم عام ہے، فجر کی سنتیں جماعت کے فوراً بعد پڑھی جاسکتی ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:686

محدث فتویٰ

تبصرے