السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ظہر کی نماز سے قبل پڑھی جانے والی چار رکعت سنت ( جو ایک سلام کے ساتھ ہوں) کی آخری دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانی جائز ہے؟ حوالہ تحریر فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم کی بعض روایات سے واضح ہو تا ہے، کہ فرضوں کی آخری دو رکعتوں میںفاتحہ کے ساتھ مزید قرأت کا اضافہ جائز ہے اور جو حکم فرض کا ہے، وہی سنتوں اور نوافل کا بھی ہے۔ اصلاً دونوں نمازوں میں کوئی فرق نہیں۔ صحیح بخاری وغیرہ میں اُمّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی نمازِ تراویح والی روایت میں ہے، کہ:
’ یُصَلِّی أَربَعًا، فَلَا تَسئَل عَن حُسنِهِنَّ ، وَ طُولِهِنَّ ۔ ثُمَّ یُصَلِّی أَربَعًا۔ فَلَا تَسئَل عَن حُسنِهِنَّ، وَ طُولِهِنَّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ فَضلِ مَن قَامَ رَمَضَانَ، رقم:۲۰۱۳، صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةِ اللَّیلِ، وَعَدَدِ رَکَعَاتِ النَّبِیِّ ﷺفِی اللَّیلِ…الخ ،رقم:۷۳۸)
یعنی ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ تم ان کے حسن اور طوالت کا تو کچھ پوچھو ہی مت۔…‘‘
اس حدیث شریف کے مطابق بظاہر چار رکعتوں میں مساوات ہی ہے۔ لہٰذا یہ چار رکعت نوافل میں فاتحہ کے علاوہ مزید قرأت کے جواز کی دلیل ہے۔
(مؤطا) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل سے بھی منقول ہے، کہ
’ کَانَ اِذَا صَلّٰی وَحدَهٗ یَقرَأُ فِی الاَربَعِ جَمِیعًا فِی کُلِّ رَکعَةٍ بِأُمِّ القُراٰنِ ، وَ سُورَةٍ مِّنَ القُراٰنِ ‘(مؤطا امام مالك،القِرَاءَةُ فِی المَغرِبِ وَالعِشَاءِ،رقم:۲۶۰)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہما جب اکیلے نماز پڑھتے، تو چار رکعتوں میںسے ہر رکعت میں فاتحہ اور قرآن کی کوئی دوسری سورت پڑھتے۔‘‘
یہ بھی اگرچہ فرض نماز کا ذکر ہے۔ تاہم مذکورہ بالاوجہ کی بناء پر ظہر کی سنتیں وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب