السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل علاقہ راجن پور میں ایک مسئلہ موضوعِ سخن بناء ہوا ہے اور بڑی شد و مد کے ساتھ ایک دوسرے پر فتوے جَڑے جا رہے ہیں۔ مسئلہ مسبوق کی امامت والا ہے۔ کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ جواز کی صورت میں کیا پوزیشن ہو گی؟ جب کہ صحیح مسلم، نیل الأوطار، اور ابن خزیمہ میں الفاظ ملتے ہیں جن سے جواز ثابت ہوتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسبوق کی امامت سے مقصود غالباً آپ کا یہ ہے کہ جماعت کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد امام کی اقتداء میں شریک ہونے والے افراد امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنے میں سے کسی ایک کو امام بناء کر بقیہ نماز بصورتِ جماعت مکمل کرلیں۔ کسی ایک بھی روایت میں واضح طور پر اس کا ثبوت موجود نہیں۔ بلکہ غزوہ تبوک کے سفر میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی جماعت سے قبل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی معیت میں قضائِ حاجت کے لیے تشریف لے گئے تھے، واپسی پر صرف ایک رکعت باجماعت کو پا سکے تھے۔ دوسری رکعت کی تکمیل حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سلام پھیرنے کے بعد اکیلے کی۔ جس طرح کہ قصہ کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے۔ حالانکہ امکان موجود تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ ملا کر فوت شدہ رکعت باجماعت پڑھ سکتے تھے۔بوقت ِ ضرورت اس شکل کو اختیار نہ کرنا عدمِ جواز کی دلیل ہے۔ نفس مسبوق کے بارے میں چند ایک صورتیں اور بھی ہیں، جن کا تذکرہ ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ میں زیرِ عنوان ’’باب ما علی الماموم من المتابعۃ وحکم المسبوق‘‘ موجود ہیں۔ یہاں مؤلف نے متنوع (مختلف)قسم کی روایات بیان کی ہیں اور صاحب ’’منتقی الاخبار‘‘ نے متذکرہ قصہ پر یوں تبویب قائم کی ہے۔’’باب المسبوق یقضی ما فاتہ إذا سلم إمامہ من غیر زیادۃ‘‘ اور اس سے پہلے عنوان بایں الفاظ ہے۔ ’باب المسبوق یدخل مع الإمام علی أیِّ حالٍ کان‘ اور صحیح مسلم و نیل الأوطار وغیرہ میں جن صورتوں کا تذکرہ ہے وہ اس کے علاوہ ہیں بوقت ِ ضرورت ان پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔ فی الحال اسی پر اکتفاء کرتاہوں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب