السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باجماعت نماز میں شامل ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ پہلی ، دوسری ، تیسری یا چوتھی رکعت میں مقتدی شاملِ نماز ہو تو باقی نماز کس طرح ادا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جماعت میں شامل ہونے والا مسبوق صف میں قبلہ رُخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھا کر تکبیرِ تحریمہ کہے اور جس حالت (رکوع، سجود ،تشہد وغیرہ) میں امام ہے، اس میں چلا جائے ۔ حدیث میں ہے:
’ فَلیَصنَع کَمَا یَصنَعُ الإِمَامُ (‘سنن الترمذی،بَابُ مَا ذُکِرَ فِی الرَّجُلِ یُدْرِكُ الإِمَامَ وَهُوَ سَاجِدٌ کَیْفَ یَصْنَعُ،رقم:۵۹۱)
یعنی ’’مقتدی ویسے ہی کرے جیسے امام کرتا ہے۔‘‘
حدیث ہذا میں اگرچہ ضعف اور انقطاع ہے، لیکن اس کا شاہد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث بسندِ متصل موجود ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’ لَا أَرَاهُ عَلٰی حَالٍ إِلَّا کُنتُ عَلَیهَا قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ مُعَاذًا قَد سَنَّ لَکُم سُنَّةً کَذٰلِكَ فَافعَلُوا ‘ ( رواه ابو داؤد، والبیهقی، ۹۳/۳)
(سنن أبی داؤد،بَابُ کَیْفَ الْأَذَانُ،رقم:۵۰۶، السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَنْ کَرِهَ أَنْ یَفْتَتِحَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ …الخ،رقم:۵۱۴۷)
اسی طرح دیگر بعض شواہد ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ اور ’’سنن سعید بن منصور‘‘ میں بھی موجود ہیں، جو اس کے مؤید ہیں۔ واضح ہو کہ تکبیرِ تحریمہ چونکہ نماز کا رکن ہے، اس لیے اس کے بغیر کوئی شخص داخلِ نماز نہیں سمجھا جاسکتا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’ تَحرِیمُهَا التَّکبِیرُ ، وَ تَحلِیلُهَا التَّسلِیمُ‘(سنن أبی داؤد،بَابُ الْإِمَامِ یُحْدِثُ بَعْدَ مَا یَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّکْعَةِ،رقم:۶۱۸)
علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیاہے۔(إرواء الغلیل۹/۲)
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ فِی هٰذَا الحَدِیثِ بِیَانٌ أَنَّ التَّسلِیمَ رُکنٌ لِلّصَّلَاةِ ، کَمَا أَنَّ التَّکبِیرَ رُکنٌ لَّهَا ‘(معالم السنن مع المختصر ۳۱۸/۲)
یعنی ’’اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ سلام پھیرنا نماز کا رکن ہے جس طرح کہ تکبیر اس کا رکن ہے۔‘‘
صاحبِ ’’مرعاۃ‘‘ مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’نماز میں شامل ہونے والے کو چاہیے کہ تکبیرتحریمہ کہہ کر امام کی موافقت میں قیام یا رکوع وغیرہ میں چلا جائے۔ فوت شدہ حصہ کی ادائیگی میں امام کی مخالفت نہ کرے،بلکہ اسی فعل میںداخل ہوجائے جس میں امام کو پائے۔ قیام، قعود، رکوع اور سجود میں امام کی پیروی کرے۔اس بات کا منتظر نہ رہے کہ جب امام قیام میں لوٹ کر آئے گا تب اس کے ساتھ ملوں گا جس طرح کہ عوام کی عادت ہے۔‘‘ (مرعاۃ المفاتیح۱۲۸/۲)
نیز علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَالظَّاهِرُ أَنَّهٗ یَدخُلُ مَعَهٗ فِی الحَالِ الَّتِی اَدرَکَهٗ عَلَیهَا مُکَبِّرًا مُعتَمِدًا بِذٰلِكَ التَّکبِیرِ وَ إِن لَّم یَعتَدَّ بِمَا أَدرَکَهٗ مِنَ الرَّکعَةِ ، کَمَن یُدرِكُ الاِمَامَ فِی حَالِ سُجُودِهٖ أَو قُعُودِهٖ ‘(نیل الأوطار۱۶۲/۳)
’’ ظاہر یہ ہے کہ مسبوق جس حالت میںامام کو پائے، اس میں شامل ہو کر تکبیر کو شمار میں لائے گا۔ اگرچہ رکعت کا مدرک حصہ (جو حصہ اس نے پا لیا ہے) شمار میں نہ آئے۔ جیسے کوئی شخص اِمام کو سجدہ یا قعدہ کی حالت میں پاتا ہے۔‘‘
مسبوق امام کے ساتھ نماز کا جو حصہ پاتا ہے وہ اس کی پہلی ہوگی اور امام کی فراغت کے بعد جو پڑھتا ہے وہ اس کی پچھلی نماز ہے۔
حدیث میں ہے: ’ فَمَا أَدرَکتُم فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُم فَأَتِمُّوا ‘(صحیح البخاری،بَابُ قَولِ الرَّجُلِ: فَاتَتنَا الصَّلاَةُ،رقم:۶۳۵)
یعنی ’’جو حصہ نماز کا امام کے ساتھ پاؤ پڑھو اور جو فوت ہوجائے پورا کرو۔‘‘
حدیث ہذا میں فوت شدہ نماز کے لیے اِتمام کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی اخیر سے پورا کرنے کے ہیں۔اخیر سے نماز اسی صورت پوری ہو گی جب مسبوق اِمام کے فارغ ہونے کے بعد جو پڑھے وہ اس کی اخیر ہو۔اور بعض روایات میں لفظ اِتمام کے بجائے قضاء بھی وارد ہوا ہے تو ان میں کوئی منافات (مخالفت) نہیں اس لیے کہ قضاء کے معنی پورا کرنے کے بھی ثابت ہیں، جیسے ارشاد باری تعالیٰ :
﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلوٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ...﴿١٠﴾...( سورة الجمعة)
اور دوسری جگہ ہے:
﴿فَإِذا قَضَيتُم مَنـٰسِكَكُم...﴿٢٠٠﴾... (سورة البقرة)
اِمام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ قُلتُ فِی قَولِهٖ:﴿فَاَتِمُّوا﴾دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الَّذِی أَدرَکَهٗ المَرأُ مِن صَلَاةِ اِمَامِهٖ، هُوَ أَوَّلُ صَلَاتِهٖ، لِأَنَّ لَفظَ الاِتمَامِ وَاقِعٌ عَلٰی بَاقٍ مِن شَیئٍ قَد تَقَدَّمَ سَائِرُهٗ ‘(معالم السنن مع المختصر۲۹۸/۱)
اس سے معلوم ہوا کہ باقی نماز پچھلی سمجھ کر ادا ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب