سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(750) باجماعت نماز میں شامل ہونے والا گزری ہوئی رکعت کس طرح ادا کرے؟

  • 24759
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 756

سوال

(750) باجماعت نماز میں شامل ہونے والا گزری ہوئی رکعت کس طرح ادا کرے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر باجماعت نماز کی ایک دو رکعت گزر چکی ہوں تو ان کو کس طرح ادا کرنا چاہیے۔ اس رکعت کو ہی پہلی رکعت تصور کیا جائے یا جو رکعت جماعت کی ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسبوق آدمی امام کے ساتھ نماز کا جو حصہ پاتا ہے، وہ اس کی پہلی رکعت سمجھی جائے گی۔ حدیث میں ہے:

’فَمَا أَدرَکتُم فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُم فَأَتِمُّوا۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ قَولِ الرَّجُلِ: فَاتَتنَا الصَّلاَةُ،رقم:۶۳۵) مع فتح الباری:۱۱۷/۱

یعنی ’’جتنی نماز امام کے ساتھ پاؤ پڑھو اور جتنی فوت ہو جائے پوری کرو۔‘‘

یہاں فائت نماز کے لیے لفظ ’’اتمام‘‘ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی اخیر سے پورا کرنے کے ہیں اور اخیر سے پورا کرنا اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو امام کی فراغت کے بعد پڑھے وہ اس کی اخیر ہو ۔ اگر کہا جائے کہ بعض روایات میں لفظ ’’قضاء‘‘ وارد ہے جو ’’اداء ‘‘ کی ضد ہے، تو اس کا جواب یہ ہے، کہ ’’قضاء‘‘ کے معنی پورا کرنے کے بھی ثابت ہیں۔ لہٰذا یہاں ’’قضا‘‘ بمعنی ’’اداء ‘‘ ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ...﴿١٠﴾... (سورة الجمعة)

یعنی جب نماز پوری ہو جائے، تو پھر روزی کی تلاش کے لیے زمین میں پھیل جاؤ۔

اور اس سے بھی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ نمازی پر واجب ہے کہ ہر صورت نماز کے اخیر میں تشہد پڑھے۔ اگر وہ رکعت جو مسبوق نے امام کے ساتھ پائی ہے آخری ہو، تو تشہد کے اعادہ کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ مزید آنکہ اہلِ علم کا اجماع ہے کہ ’’تکبیر تحریمہ‘‘ کا تعلق صرف پہلی رکعت سے ہے۔

ان دلائل و شواہد سے معلوم ہوا، کہ مسبوق آدمی امام کے ساتھ جو نماز پاتا ہے، وہ اس کی پہلی نماز ہی سمجھی جائے گی۔ ملاحظہ ہو! فتح الباری:۱۱۹/۲۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:641

محدث فتویٰ

تبصرے