السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صورتِ احوال یہ ہے کہ ’’ الاعتصام‘‘ کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آج مجھے سوال درپیش ہے کہ اجتماعی دعا فرائض کے بعد ثابت نہیں ہے، لیکن اپیل پر کسی بیمار وغیرہ کے لیے دعا میں کوئی حرج نہیں۔ میں اس مندرجہ بالا موقف کا قائل ہوں۔ میں فرائض کے بعد انفرادی دعا کیا کرتا تھا۔ باقی اگر اجتماعی دعا کریںتو میں نہیں کرتا۔ میں اکیلے ہی کرتا ہوں۔ گزشتہ دنوں میرے دوست نے انگلینڈ سے ایک کتاب ’’فتاویٰ از شیخ عبدالعزیزبن عبد اﷲ بن باز مترجم‘‘ ارسال کی اس کتاب میں تقریباً ۲۷۰ فتوے ہیں۔ اس کتاب میں ہے کہ کسی نے سوال پوچھا کہ کیا فرض نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہے؟(سوال میں اجتماعی یا انفرادی دعا کا ذکر نہیں تھا)تو مفتی سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے فرض نماز کے بعدہاتھ اٹھا کر دعا مانگی، اور انھوں نے اس کو بدعت قرار دیا ہے۔
اب آپ سے سوال یہ ہے کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہے اور دوسری طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت نہیں۔ کیا یہ حدیث ضعیف ہے اگر حدیث صحیح ہے تو پھر ان میں تطبیق کی کیا صورت ہے۔
یاد رہے کہ لاہور کے ایک مرکز، ’’مرکز تحقیق و اشاعت‘‘ نے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے کہ انفرادی دعا بعد از فرض نماز بدعت ہے۔بعض دوست کچھ نہ کچھ نئی بات ہی بتاتے ہیں اس لیے سوال نمبر ۲ میں تمام شک و شبہادت دور کریں؟ مہربانی ہو گی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا واقعۃً کوئی ثبوت نہیں اور جو لوگ فرض نماز کے بعد انفرادی دعا کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال ترمذی میں وارد حضرت ابو امامہ( رضی اللہ عنہ ) کی روایت سے ہے جس میں اجابت دعا کے اوقات میں ’’دُبُرُ الصَّلَوَات المَکتُوبَات‘‘ شمار کیا گیا ہے اور اسی طرح عمومی روایات جن میں دعا کی ترغیب وارد ہے، سے بھی ان کا احتجاج ہے۔ اوّلاً: روایت میں کچھ کلام ہے۔ ثانیاً: لفظ دبر کا مفہوم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق نماز کا آخری حصہ قبل از سلام ہے جس طرح کہ اس موقعہ پر ’’ادعیہ‘‘ (دعائیں) کی تحریض (شوق دلانا) بھی وارد ہے۔
اگرچہ بعد از سلام کا بھی احتمال موجود ہے۔ عربی زبان میں یہ استعمال بھی شائع ہے۔بہر صورت من وجہ گنجائش کا پہلو موجود ہے جس کو شارح محدث مبارکپوری رحمہ اللہ اور شیخ یمانی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’ سُنِّیَّةُ رَفعِ الیَدِینِ فِی الدُّعَاءِ بَعدَ الصَّلَوَاتِ المَکتُوبَاتِ لِمَن شَاءَ ‘‘ میں اختیار کیا ہے۔
رسالہ ہذا’’المنتقٰی‘‘ کے حاشیہ پر اور ’’معجم طبرانی‘‘ کے آخر میں طبع شدہ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب