سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(730) نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کی ثبوت نہیں؟

  • 24739
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3685

سوال

(730) نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کی ثبوت نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

۱۰؍ مئی (۲۰۰۲ء) کے ’’الاعتصام‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: کہ نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں، اور بے ثبوت شے کا اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں۔  اس ضمن میں عرض ہے کہ خاکسار گزشتہ پون صدی کے دوران ملک ہندو پاک کے مختلف شہروں میں عید کی نمازوںمیں شامل ہوتا رہا اور ہر جگہ خطبے کے بعد اجتماعی دعا ہی ہوتی رہی۔ بلکہ علمائے کرام اور ائمہ نماز عید کے دن اس عمل کی تاکید بھی فرماتے رہے۔ خصوصاً ’’صحیحین‘‘ کے حوالے سے جہاں حائضہ عورتوں کی عید کے اجتماع میں شمولیت کی تاکید ہے یعنی ’وَیَشهَدنَ الخَیرَ ، وَ دَعوَةَ المُؤمِنِینَ‘ اور ’فَیَشهَدنَ جَمَاعَةَ المُسلِمِینَ وَ دَعوَاتِهِم‘"(صحیح البخاری،کتاب الصلاة،بَابُ وُجُوبِ الصَّلاَةِ فِی الثِّیَابِ،رقم:۳۵۱ ")

’یَشهَدنَ الخَیرَ،  وَ دَعوَةَ المُسلِمِینَ‘صحیح مسلم،(کِتَابُ صَلَاةِ العِیدَینِ، بَابُ ذِکرِ إِبَاحَةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی العِیدَینِ،رقم:۸۹۰،صحیح البخاری،رقم:۱۶۵۲)

            یومِ عیدکو اجتماعی دعا کو سنت کے مترادف خیال کیا جاتا رہا۔ مگر اب اس کے بدعت ہونے کا فتوٰی دیا جانے لگا ہے۔ محولہ بالا احکام نبویؐ کے باوصف اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؓ کا معمول اجتماعی دعا کا نہیں تھا، تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے کہ ان کا طریق کار کیا تھا؟ کیا وہ (مرد و زن) خطبے کے فوراً بعد عیدگاہ کو چھوڑ دیتے تھے یا انفرادی دعائیں مانگتے رہتے تھے۔ جب کہ کسی کی دعا قلیل اور کسی کی طویل ہوسکتی تھی۔ بات کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی، کہ مسلک اہلِ حدیث کے علماء کرام نے بھی اس ’’بدعت‘‘ کو کیسے جاری رکھا ہوا ہے۔ جن عورتوں کو نماز کی معافی ہو ان کی عیدگاہ میں حاضری کے لیے تاکید کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ صرف خطبہ سن کر چلے جانا یا کچھ اور بھی؟ مسئلہ کی وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ظاہر یہ ہے، کہ مشارٌ الیہ حدیث میں  دَعوَۃَ المُسلِمِینَ سے مراد خطبۂ عیدین میں ذکر و اذکار اور کلماتِ وعظ و نصیحت ہیں۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوسکا، کہ عیدین کے بعد دعا کی۔ احادیث کے راویوں میں سے کبھی کسی راوی نے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ بلکہ اس وقت جو شے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ وہ یہ ہے، کہ مسلمانوں کی جملہ حاجات و ضروریات کا جائزہ لے کر ان کے حل کی سعی فرماتے ۔ حقیقتاً جب ساری ہیئت اجتماعی دعا ہی ہے، تو پھر خود ساختہ تکلفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، جس میں بجائے فائدے کے نقصان کا پہلو یقینی ہے۔ حقیقت یہ ہے، کہ یہ سبھی کچھ رُوحِ نماز سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ نماز تو مُناجاتِ رب اور قرب الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق:۱۹)  ’’اور سجدہ کرو اور قرب (الٰہی) حاصل کرتے رہو ۔‘‘

 صحیح مسلم میں حدیث ہے:

’ اَقرَبَ مَایَکُونُ العَبدُ مِن رَّبِّه،ٖ وَهُوَ سَاجِدٌ فَاَکثِرُوا الدُّعَاءَ ‘(صحیح مسلم، بَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ،رقم:۴۸۲")

’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، لہٰذا بکثرت دعا کیا کرو۔‘‘

باقی رہی یہ بات کہ تمام علمائے حدیث کا عمل عید کے بعد اجتماعی دعا پر رہا ہے۔ تو یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ بلکہ بات یوں ہے، کہ محققین اہلِ علم کبھی اس بات کے قائل نہیں رہے۔ کیونکہ اس کی کوئی سند نہیں۔ ہمارے شیخ حافظ محمد محدث گوندلوی  رحمہ اللہ کے شاگرد رشید علامہ عبیداللہ رحمانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ لَم یَثبُت عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ دُعَاءٌ بَعدَ صَلٰوةِ العِیدَینِ، وَ لَم یَنقُلِ الدُّعَاءَ اَحَدٌ بَعدَهَا‘مرعاة المفاتیح :۲؍ ۳۳۱

’’نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے عیدین کے بعد دعا ثابت نہیں ہوسکی۔اور نہ کسی نے اس کے بعد دعا نقل کی ہے۔‘‘

لہٰذا عمل دلیل کے تابع ہونا چاہیے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دعا میں طریقہ وہی تھا، جس کی سنت سے وضاحت ہوچکی، اور صحابیاتسوال: بھی اسی پر عمل پیرا تھیں۔

میرے اس فتوے پر ’’محدث ‘‘ لاہور (ربیع الاول ۱۴۲۳ھ) میں مولانا محمد رمضان سلفی صاحب (استاذ جامعہ لاہور الاسلامیہ) نے بایں تعلیق فرمائی ہے: ’’محترم حافظ صاحب کی سجدہ والی مثال حائضہ عورت کے حوالہ سے واضح نہیں ہے، کیونکہ حائضہ عورت نماز نہیں پڑھتی۔ البتہ حدیث میں وارد لفظ ’’ودعوتھم‘‘ کی دعا کے ساتھ تفسیر صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ صحیح البخاری میں ہے۔

’ عَن أُمِّ عَطیَةَ، قَالَت: کُنَّا نُؤمَرُ أَن نَخرُجَ یَومَ العِیدِ حَتَّی نُخرِجَ البِکرَ مِن خِدرِهَا، حَتَّی نُخرِجَ الحُیَّضَ، فَیَکُنَّ خَلفَ النَّاسِ، فَیُکَبِّرنَ بِتَکبِیرِهِم، وَیَدعُونَ بِدُعَائِهِم یَرجُونَ بَرَکَةَ ذَلِكَ الیَومِ وَطُهرَتَهُ ‘(صحیح البخاری،بَابُ التَّکبِیرِ أَیَّامَ مِنًی، وَإِذَا غَدَا إِلَی عَرَفَةَ،رقم:۹۷۱، مع الفتح: ۲؍ ۴۶۱)

’’حضرت اُم عطیہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے ہمیں عید کے دن نکلنے کا حکم ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم کنواری اور حیض والی عورتوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ وہ  لوگوں کے پیچھے سے مردوں کے ساتھ تکبیریں کہتیں اور ان کی دعا میں شریک ہوتی تھیں…۔‘‘

حدیثِ نبوی سے ہی لفظ ’دعوت، کی وضاحت آجانے کے بعد دیگر معانی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔‘‘

جواب::اس کا جواب یہ ہے کہ مضمون کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ سجدے والی مثال کا تعلق ان افراد سے ہے جنہوں نے نماز پڑھنی ہے اور عید کے اجتماع میں حائضہ کی شرکت صرف کلمات ِ ذکر و اذکار وغیرہ میں ہے۔ جس حدیث میں ’’یَدعُونَ بِدُعَائِھِم‘‘ کا ذکر ہے اس سے مقصود بھی ہیئت ِ اجتماعی میں شرکت ہے جس میں کلمات ِ وعظ و نصیحت اور ذکر اذکار شامل ہیں، جس پر دعا کا اطلاق ہوا ہے۔ نہ کہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا جس کا کوئی ثبوت نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:631

محدث فتویٰ

تبصرے