السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صورت احوال یہ ہے کہ مولانا بشیر الرحمن صاحب نے ’’روح عبادت الدعا‘‘ ص:۶، پر لکھا ہے(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا فرمایا کرتے تھے) دلیل کے لیے حدیث یہ لکھی ہے:
’ عَن عَبدِ اللّٰهِ بنِ الزُّبَیرِ أَنَّهٗ رَأَی رَجُلًا رَافِعًا یَدَیهِ، یَدعُوا قَبلَ أَن یَّفرُغَ مِن صَلٰوتِهٖ۔ فَلَمَّا فَرَغَ مِنهَا، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِﷺ لَم یَکُن یَرفَعُ یَدَیهِ حَتّٰی یَفرُغَ مِن صَلٰوتِهٖ ‘ رجاله ثقات۔ تحفة الاحوذی(۲۴۵/۱) الطبرانی و مجمع الزوائد (۱۶۹/۱۰)المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:۳۲۴
’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز سے فراغت سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا۔ فارغ ہونے کے بعد اُسے فرمایا: کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے تھے۔‘‘ یہ حدیث بالکل صحیح اور قابلِ عمل ہے۔
(ص:۱۳۔۱۶) پر فرماتے ہیں: (علم قواعد) گرائمر میں لفظ’’حَتّٰی‘‘کا عمل یہ ہے، کہ اس لفظ سے پہلے جس طرح کسی چیز کی شدت سے نفی ہوگی(حتی) کے بعد اس طرح اس فعل کا اثبات ہو گا۔ اس کی مثال قرآن مجید میں ہے:
﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ...﴿٢٣٠﴾... سورة التوبة
یعنی تیسری طلاق کی صورت میں عورت کسی اور مرد سے نکاح کرنے سے پہلے اپنے خاوند پر حلال نہیں۔
مگر بعد میں حلال ہے۔ یعنی لفظ ’’حتی‘‘ سے پہلے جس عمل کی نفی ہو گی حتی کے بعد اس کا اثبات ہوگا۔ یہاں بھی فراغت نماز سے پہلے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، مگر فراغت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اٹھاتے تھے… کا مفہوم ہے۔ مغنی اللبیب:۱۳۳/۱
(ص:۴۶) پر فرماتے ہیں: ’ قَبلَ أَن یَّفرُغَ ‘ یعنی فراغت سے پہلے اس نے ہاتھ اٹھائے تھے جس سے تشہد میں ہاتھ اٹھاناسمجھ آرہا ہے۔ یہاں عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا انکار، قنوت میں ہاتھ اٹھانا نہیں۔ تشہد میں ہاتھ اٹھانے سے انکار ہے۔‘‘
(ص:۲۳۔۲۴) پر لکھا ہے: ’’عبد اﷲ بن نافع بن عمیاء کو مجہول قرار دے کر ہی اسے ضعیف کہا گیا ہے۔ مگر امام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ اصولِ حدیث کی رُو سے ابن حبان کی ثقاہت دوسروں کی ہلکی سی تنقید پر قابلِ ترجیح ہے۔ ان کا کہنا کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔ یعنی مجہول ہے۔ ابن حبان کے علم کا مقابلہ نہیں کر سکتا، کیوں کہ جان کر ، معلوم کرکے ، با خبر ہو کر ہی وہ اسے ثقات میں شامل مان رہے ہیں۔ لہٰذا وہ ہلکا سا ضعف بھی ختم ہو گیا ہے۔‘‘
(ص:۷۲) پر لکھا ہے: ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’بلوغ المرام‘‘ میں مسلکِ محدثین کے ثبوت میں بہت سے مقامات پر ضعیف احادیث سے استدلال نہ کرتے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب’’صحیح بخاری میں ضعیف احادیث کو’’ترجمۃ الباب‘‘میں تائید کے لیے پیش نہ کرتے۔ حق یہ ہے، کہ تمام ’’ائمۂ ہدیٰ‘‘ نے احادیثِ ضعاف کو معرضِ استدلال میں دلیل بنایا ہے۔ امام ابن قیم’’اعلام الموقعین‘‘(۳۱/۱) میں ائمہ کرام کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو!
’ لَیسَ المُرَادُ بِالضَعِیفِ عِندَهُ البَاطِلَ، وَ لَا المُنکَرَ بَل الحَدِیثُ الضَعِیفُ عِندَهُ قَسِیمُ الصَّحِیحِ ، وَقِسمٌ مِن اَقسَامِ الحَسَنِ۔ ‘
’’ضعیف حدیث سے مراد باطل، منکر، مردود اور قابلِ انکار نہیں ہے۔ بلکہ ضعیف حدیث کا درجہ حسن حدیث جیسا ہے، عمل و قول میں۔ ‘‘
پھر لکھتے ہیں:’لَیسَ اَحَدٌ مِنَ الأَئِمَةِ اِلَّاهُوَ مُوَافِقُهٗ عَلٰی هَذَا الاَصل‘ ’’کوئی بھی اہل حدیث امام اس مسئلہ میں اس بات کا مخالف نہیں ہے۔ سب موافق ہیں۔ ‘‘
نیز امام ترمذی رحمہ اللہ تو کتاب’’ العلل‘‘ میں فرماتے ہیں:’ قَد رَوٰی غَیرُ وَاحِدٍ مِنَ الاَئِمَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ ‘ ’’یعنی اکثر ائمہ حدیث نے ضعیف لوگوں کی روایات کو بیان کیا ہے۔‘‘
ہاں! اس بات میں بھی کوئی شک نہیں، کہ اگر ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیح حدیث یا واضح دلیل موجود ہو تو ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
(ص:۴۶) پر لکھا ہے: ’’کسی ضعیف حدیث کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا، کہ یہ لازماً ناقابلِ عمل ہے… بلکہ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دین وشریعت کا کافی حصہ، انہی ضعاف احادیث پر مشمل ہے۔‘‘
اپیل ہے! کہ آپ براہِ مہربانی اس تحریر کا مدلل جواب عنایت فرمائیں گے۔شکریہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں جو روایت ہذا کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ یہ بات فی الواقع نفس حدیث کی صحت کو مستلزم نہیں، کیونکہ امکان ہے درمیان سند میں انقطاع ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ صاحب ’’المجمع‘‘ پر توثیق رواۃ کے بارے میں کلی اعتماد کرنا صحیح نہیں۔ کیونکہ کتاب ہذا میں ان کے کئی ایک اوہام اہلِ علم میں معروف ہیں۔ ہمارے ایک فاضل دوست شیخ عاصم اردنی استاذ مدینہ یونیورسٹی نے کتاب ہذا کی تخریج پر پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ لیکن ان کی کاوش ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔
جب تک اس حدیث کی اصل سند سامنے نہ آئے، اس وقت تک توقف کرنا چاہیے اور اصل روایت طبرانی میں بروایت محمد بن ابی یحییٰ مروی ہے اور اگر کوئی اس حدیث کی صحت کا دعویدار ہے، تو پہلے اسے اصل سند پیش کرنی چاہیے، تاکہ معیارِ محدثین پر اس کو پرکھا جاسکے۔ ورنہ یہ حدیث بالکل صحیح اور قابلِ عمل ہے کے دعویٰ کی حقیقت ، تارِ عنکبوت سے زیادہ نہیں ہوگی۔
بغرضِ تسلیم بھی اس حدیث میں اجتماعی دعا کا ذکر نہیں۔ بلکہ صرف انفرادی دعا کا تذکرہ ہے ۔ پھر صحیح روایات میں تصریح ہے کہ فرض نماز سے فراغت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ذکر اذکار کرنا تھا۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا نہیں۔باقی ضعیف حدیث کی حجیت کے بارے میںمیرا ایک تفصیلی مضمون جواب در جواب ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور میں ۲۳ صفحات پر مشتمل شائع شدہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے جملہ شکوک و شبہات دُور ہو سکتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب