سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(721) شریعت میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

  • 24730
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3408

سوال

(721) شریعت میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض نماز کے بعد دعا میں بعض لوگ ہاتھ اٹھانے کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں اور بعض مستحب، اور بعض محض جواز کے قائل ہیں، کیونکہ ہم نے کئی علماء سے سنا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے بعد کی دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا ثابت تو نہیں مگر فرائض کے علاوہ نوافل میںیا بعد میں ہاتھ اٹھا کر دعا کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی بنا ء پر اس جواز کو سنت نبوی یا ثواب نہیں خیال کیا جاتا تاکہ بدعت کے زمرے میں نہ آجائے۔ میں نے مولانا مودودی مرحوم کی زندگی میں ان کا ایک درس سنا، جس میں انھوں نے بھی ایک سوال کے جواب میں یہی کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  سے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں۔ آپ کی طرف سے کسی کے سوال کے جواب ہفت روزہ الاعتصام،۸۔ ستمبر ۱۹۹۵ء صفحہ۹۳۶/۱۰، پر مرقوم ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں۔ ظاہر ہے عدمِ ثبوت کی بناء پر ’’احداث فی الدین‘‘ ہی قرار پائے گا۔

ماہنامہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ کراچی کے صفحہ۴۱، پر ایک سوال کے جواب میں مولانا بشیر الرحمن سلفی کی طرف سے وضاحت ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل سے ثابت ہے، اور یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس سنت پر عمل کرنا چاہیے۔ ان کے شائع شدہ موقف کی فوٹو کاپی ارسال خدمت ہے:

درج بالا گزارشات کی بناء پر ایک الجھن پیدا ہو گئی ہے۔ وضاحت فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔ سنت نبوی اور ’’احداث فی الدین‘‘ کو عرش و فرش کے فاصلے سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا اور اس کی عملی صورت پانچ دفعہ روزانہ پیش آتی ہے جس سے اس مسئلہ کی اہمیت عیاں ہے ۔

سوال یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کونسی حدیث سے ثابت ہے۔ حوالہ بھی اور یہ بھی بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کن کن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہے؟

سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ  نے اپنے فتاوٰی میں عنوان قائم فرمایا ہے، کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے ، اس مسئلہ پرانھوں نے متعدد احادیث رقم فرمائی ہیں۔ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری مرحوم نے بھی ’’تحفۃ الاحوذی‘‘(۲۴۶/۱) میں اس مسئلہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی اور فرمایا ہے کہ نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے ’’الأدب المفرد‘‘ اور ’’صحیح بخاری شریف‘‘ میں دعا میں ہاتھ اٹھانے کا اشارہ کیا ہے ۔ ایک صحیح حدیث نوٹ کریں کہ عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کے پاس ایک آدمی نے نماز کے تشہدمیں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے تو حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

’ إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ کَانَ یَرفَعُ یَدَیهِ بَعدَ اَن یَّفرُغَ مِنَ الصَّلٰوةِ ‘ ابن أبی حاتم، ابن هیثم، بحواله تحفة الاحوذی،(رجاله ثقات)

یہ حدیث بالکل صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا فرمایا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی آپ کے عمل کی پیروی کرنا چاہیے۔ اس موضوع پر راقم الحروف کا ایک رسالہ( چار صفحی) چھپ چکا ہے، اور بڑا رسالہ عنقریب چھپنے والا ہے۔ انتظار کیجیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ جملہ اہلِ علم تقریباًاس بات پر متفق ہیں، کہ فرض نماز کے قطعِ نظر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حافظ منذری رحمہ اللہ  نے اس مسئلہ پر ’’جز‘‘(رسالہ) تصنیف کیا، جس میں تیس کے قریب احادیث بیان کی ہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ  کا رسالہ ’’فض الدعا‘‘ اس کا موضوع بھی یہی ہے۔ محدثین نے بھی اپنی کتابوں کے تراجم و ابواب میں اس امر کو خوب واضح کیا ہے۔

لیکن بالخصوص فرض نماز کے بعد اجتماعی یا انفرادی دعا کا کیا حکم ہے؟ سو یہ مسئلہ اس وقت زیرِ غور ہے ۔ جہاں تک اجتماعی دعا کا تعلق ہے، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں۔

میں نے ایک سوال کے جواب میں اسی بات کی نفی کی ہے، اور شیخ ابن باز  رحمہ اللہ مفتی اعظم سعودی عرب نے اپنے بعض فتوؤں میں اس کو بدعت قرار دیا ہے۔

انفرادی دعا کے بعض اہلِ علم قائل ہیں۔علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ  کا رجحان  تحفۃ الاحوذی میں اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور شیخ محمد بن عبدالرحمن یمانی نے اپنے رسالہ ’’سنیة رفع الیدین فی الدعا‘‘ میں اسی موقف کا اظہار کیا ہے۔ جوچاہے ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتا ہے اور مجلہ ’’صراط مستقیم‘‘ میں محترم مولانا بشیر الرحمن سلفی نے بھی غالباً اسی طریقۂ دعا کے اثبات کی سعی فرمائی ہے، اور اجتماعی طریقہ دعا سے سائل اور مسئول عنہ دونوں ساکت ہیں۔ لہٰذا جہت کے اختلاف کی بناء پر ہمارے فتووں میں تضاد نہ ہوا۔ اب مفتی موصوف نے حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی جس روایت کو ذکر کرکے دعویٰ کیا ہے، کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ محض مفروضہ اور غیر تحقیقی بات ہے۔ ماہرینِ فن اس بات سے آگاہ ہیں، کہ حضرت ہیثمی کا قول (رجالہ ثقاتٌ) (اس حدیث کے رواۃ ثقہ ہیں) صحت حدیث کو مستلزم نہیں۔ ممکن ہے سند میں انقطاع ہو، جب کہ حافظ موصوف کے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں اوہام بھی معروف ہیں۔ مدعی صحت کے لیے ضروری ہے، کہ پہلے اس کی صحیح سند پیش کرے۔ پھر اس پر اپنے دعوے کی بناء رکھے۔ مثل مشہور ہے: أَ ثِبتِ العَرشَ ثُمَّ انقُشَ‘‘ (پہلے تخت کے وجود کو ثابت کر۔ پھر اس پر نقش و نگار کر) ایسے امور کے بارے میں اصولِ حدیث میں معروف ہے، کہ توقف کرنا چاہیے۔ (حَتّٰی یَاتِیَ اللّٰہُ بِاَمرِہٖ )

اور ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں وارد روایات کے بارے میں کئی دفعہ ’’الاعتصام‘‘ میں تفصیلی بحث شائع ہو چکی ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اوّلاً : تو ذکر کردہ روایات ضعیف ہیں اور کسی سے تمسک ممکن ہے تو وہ اصل موقف کی مؤید نہیں۔

’’صفۃ الصلاۃ‘‘ کے باب میں محدثین کے قائم کردہ تراجم و ابواب پر، میں نے کافی غور و خوض کیا۔ بالخصوص ’’صحیح بخاری اس میں فرض نماز کے بعد اجتماعی یا انفرادی دعا کی طرف اشارہ تک موجود نہیں۔ عظیم شارح ’’خاتمۃ الحفاظ‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ  بھی ساکت نظر آتے ہیں۔ معلوم یوں ہوتا ہے، کہ اصل دعا کا محل قبل از سلام ہے۔ بعد میں صرف ذکر اذکار ، تسبیحات ،تحمیدات اور تکبیرات وغیرہ ہیں۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  وغیرہ کا یہی خیال ہے۔اﷲ تعالیٰ جملہ مسلمانوں کو سنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین!

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:624

محدث فتویٰ

تبصرے