السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں چند سال سے ماہنامہ ’’محدث‘‘کامستقل قاری ہوں اور آپ کا سوال وجواب والا کالم بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ میں ’’فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا‘‘کے سلسلہ میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے میں نے مجلہ ’’الدعوۃ‘‘میں مفتی مبشر احمد ربانی صاحب کے قلم سے یہ مسئلہ پڑھا۔ انہوں نے اپنے فتوے کی تائید میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم کی کتابوں کے اقتباسات نقل کئے۔ پھر مفتی اعظم ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ پڑھا۔ شیخ الحدیث حافظ محمد شریف صاحب سے خود میں نے پوچھا۔ مولانا اقبال کیلانی کی کتاب ’’نماز کے مسائل‘‘میں بھی پڑھا۔ مذکورہ بالا تمام علما کے نزدیک یہ دعا بدعت ہے سنت نہیں۔ (کیونکہ میرے خیال میں جو چیز سنت نہ ہو، وہ بدعت ہی ہے۔)
البتہ مولانا عاصم الحداد رحمہ اللہ ’’فقہ السنہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ اس پر ہمیشگی ٹھیک نہیں۔ پھر میں نے مشہور محقق عالم حافظ زبیرعلی زئی صاحب سے خط لکھ کر پوچھا۔ ان کے دو خط میرے پاس ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں! بعض ضعیف احادیث میں فرائض کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادی دعا مروی ہے۔ بعض علما مختلف روایات کے عموم اور ضعیف احادیث کی رو سے اسے ثابت سمجھتے ہیں مثلاً ’’طبرانی‘‘( یاشاید ’’طبری’’) کی فضیل بن سلیمان والی روایت۔ اگر یہ روایت ثابت ہوجائے تو پھر فرائض کے بعد انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح دعا کرنا جائز ہے۔ یہ مسئلہ اجتہادی ہے، اس میں بدعت کا فتویٰ نہیں لگانا چاہئے اور قولِ راجح یہی ہے کہ یہ دعا نہ کی جائے ۔ اِلا یہ کہ کبھی کبھار کوئی مطالبہ ہو۔ چونکہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے، اس لئے جس کی جو تحقیق ہے عمل کرے۔ ان شاء اللہ ماجور ہوگا۔
دوسری طرف گوجرانوالہ کے عالم دین مولانا بشیرالرحمن سلفی صاحب نے اپنی کتاب غالباً ’’الدعاء ؛ روحِ عبادت‘‘میں اس دعا کو بہت ساری حدیثوں اور آیتوں کی رو سے سنت ِثابتہ بتلاتے ہیں۔ منکرین کو نوخیز علما میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سابقہ علماے اہلحدیث مثلاً مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ موقف نہیں تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی ایک روایت پر وہ بہت زور دیتے ہیں۔
اسی مسئلے پراس سلسلے کی دوسری کتاب جس کے اوپر یعنی باہر والے ٹائٹل پر ’’فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کے فضائل و دلائل‘‘از مولانا عبدالجبار سلفی اور اندر والے ٹائٹل پر ’’فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی اور اہلحدیث کا مسلک ِاعتدال‘‘لکھا ہوا ہے۔ مولانا ابو مسعود عبدالجبار سلفی صاحب بھی اسے سنت ہی بتلاتے ہیں اور بہت ساری حدیثوں اور آیتوں سے حوالے دیتے ہیں۔ موخر الذکر دونوں علما منکرین ِاجتماعی دعا (یعنی علمائ) کو بعض جگہ پر بہت سخت الفاظ کہہ جاتے ہیں جس کا اندازہ دونوں کتابیں پڑھنے سے ہوتا ہے۔
اب آپ بتائیں کہ ایسی صورتحال میں ہم کیا کریں۔ دونوں طرف اہل حدیث علماء ہیں کچھ سنت بتلا رہے ہیں اور کچھ بدعت (معاملہ سنت اور بدعت کا ہے)۔ اس سلسلے میں بہت سے سوال ذہن میں اٹھتے ہیں مثلاً :۱۔ اہلحدیث علماء میں اتنا ا ختلاف کیوں ہے؟
۲۔ کیا واقعی یہ دعا بدعت ہے؟ اگر ہے تو پھر جو علماء اسے سنت سمجھتے ہیں، بالخصوص جن کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کی کتابوں میں جو دلائل ہیں ان کا کیا کریں؟
۳۔ اور اگر بدعت نہیں ہے تو جو علماء اسے بدعت سمجھتے ہیں، وہ کن دلائل کی رو سے اسے بدعت کہتے ہیں؟
۴۔ یا پھر یہ مسئلہ اجتہادی ہے (سنت ، بدعت والا کوئی مسئلہ نہیں) جس کی جو تحقیق ہو عمل کرے۔ دونوں طرح ٹھیک ہے... گنجائش موجود ہے؟
۵۔ انفرادی دعا فرائض یا سنن کے بعد باقاعدگی سے جائز ہے؟ یا کبھی کبھار؟
۶۔ بعض علماء صرف جمعہ کی نماز کے بعد ہمیشہ دعا کرتے ہیں۔ اس میں شرکت کا کیا حکم ہے؟
میں نے ساری تفصیل سے آپ کو آگاہ کردیا ہے۔ برائے مہربانی دونوں صورتوں میں یعنی اگر بدعت ہے تو سنت کہنے والوں کے تمام دلائل کی حقیقت اور اگر سنت ہے تو منکرین کیوں اسے بدعت کہتے ہیں، مکمل تفصیل سے بیان کریں۔ نیز سابقہ علما اور محدثین کے مسلک کو بھی بیان کریں۔ جزاکم اللہ خیراً (محمد نوید عامر)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ عام حالات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہئے۔ اس موضوع پر علامہ سیوطی کا ایک مستقل رسالہ بنام فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء بھی ہے اور اسی موضوع پر حافظ منذری کی بھی ایک تصنیف ہے اور امام نووی نے المجموع شرح المہذب(۵۰۷/۴تا۵۱۱) میں صفۃ الصلاۃ باب کے آخرمیں صحیحین سے یا دونوں میں سے کسی ایک سے قریباً تیس احادیث جمع کی ہیں جن میں دعا میں رفع الیدین کی تصریح موجود ہے۔ مزید برآں قرآن کی متعدد آیات میں دعا کی صرف ترغیب و تحریص ہی نہیں بلکہ دعا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن کی عملی تفسیر خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ، اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ (النجم:۳،۴) ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پراتاری جاتی ہے۔‘‘
شریعت کی قولی و فعلی تشریحات کتب ِاحادیث اور ان کی شروح میں محفوظ ہیں جن کے ذریعے ایک طالب ِحق بآسانی مطلوبہ مقاصد سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ بالخصوص نما زایک عظیم فریضہ ہے جس کی جملہ جزئیات کا عملی نمونہ ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کی اقتدا میں پانچوں وقت نمازیں پڑھتی تھی۔ اُنہوں نے ہر اعتبار سے نماز کے مسائل کی وضاحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر ان سے کسی ایک فرد نے بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا کاذکر تک نہیں کیا۔ پھر محدثین عظام جن کی حدیثی خدمات اظہر من الشمس ہیں جنہوں نے ایک ایک فرمانِ نبوی سے بے شمار مسائل کا استنباط واستخراج کیا، کبھی کسی نے کسی روایت سے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا وجوب یا استحباب کا مسئلہ اَخذ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اجتماعی دعا کے قائلین نے جن روایات کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے، وہ بھی ذخیرئہ حدیث میں موجود اور محدثین کے سامنے تھیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ ائمہ محدثین کے ابواب و تراجم کو اٹھا کر دیکھیں، آپ کو اجتماعی دعا کے فرض یا استحباب پرادنیٰ سی جھلک بھی نظر نہیں آئے گی۔ اجتماعی دعا کے قائلین کے دلائل اور ان پر محاکمہ درج ذیل ہے:
۱۔ بطورِ مثال حضرت ابوامامہ کی روایت کو لیجئے ...
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ دعاکس وقت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا: جوف اللیل الآخر ودبر الصلوات المکتوبات رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ سنن الترمذی:۵؍۱۸۸ عمل الیوم واللیلۃ للنسائی:ص:۱۸۶
یہ روایت ابواب ماجاء فی جامع الدعوات کے ضمن میں بیان ہوئی ہے اور امام ترمذی نے اس پر حسن کا حکم لگایاہے۔ اصل صورت ِحال یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں ابن جریج مدلس راوی ہے ۔ دارقطنی نے کہا کہ بدترین تدلیس ابن جریج کی ہے کیونکہ وہ تدلیس اس وقت کرتا ہے جب اس نے حدیث کسی مجروح سے سنی ہو۔ اسی امر کی صراحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب طبقات المدلسین میں بھی موجود ہے اور روایت ِہذا کو ابن جریج نے عنعنہ سے ذکر کیا ہے، سماع اور تحدیث کی صراحت نہیں کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سند میں انقطاع ہے کیونکہ اس میں راوی عبدالرحمن بن سابط کا ابن جریج سے سماع ثابت نہیں، امام ابن معین نے یہی کچھ کہا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اس حدیث میں دبرالصلوات المکتوبات کا اضافہ ’’شاذ‘‘ہے۔ کیونکہ اس حدیث کی ابوامامہ سے پانچ سندیں اور بھی ہیں جن میں یہ اضافہ نہیں بلکہ صرف پہلے ٹکڑے جوف اللیل الاٰخر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:الفتوحات الربانیۃ: ۳۰/۳
اگر اس حدیث کو مان بھی لیاجائے تب بھی چونکہ اس حدیث میں اجتماعی دعا کا تو ذکر ہی نہیں ، اس لئے یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟ صاحب ِمشکوٰۃ نے اس حدیث کو عنوان ’’باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف کے نزدیک اس سے مقصود عمومی ذکر واذکار ہیں جو انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا ہی کی ایک شکل ہے اور ان میں کسی کوکوئی اختلاف ہی نہیں کہ جس طرح حالت نماز میں ذِکر ہیں، اسی طرح سلام پھیرنے کے بعد بھی بہت ساری دعائیں پڑھنا مسنون ہیں۔ہر مقام پر یہ سمجھ لینا کہ ہاتھ اُٹھائے بغیر دعا کا کوئی تصور نہیں، ایسا تصور جہالت اور شرعی نصوص سے لاعلمی پر مبنی ہے۔
۲۔ اجتماعی دعا کے قائلین کا استدلال مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے بھی ہے جو یزید بن اسود عامری سے مروی ہے کہ
’صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ انْحَرَفَ ورفع یدیه ودعا‘
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سے منہ موڑ کر دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلوٰة ،مَنْ کَانَ یَسْتَحِبُّ إِذَا سَلَّمَ أَنْ یَقُومَ أَوْ یَنْحَرِفَ،رقم:۳۰۹۳
اس روایت کی سند بھی ’’حسن ‘‘درجہ کی ہے مگر اس میں ورفع یدیہ ودعاکے الفاظ نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الصلاۃ باب من کان یستحب إذا سلم أن یقوم أو ینحرف(۳۰۲/۱) میں یہ روایت موجود ہے لیکن ’ و رفع یدیہ و دعا‘ کے الفاظ اس میں موجود نہیں جیسا کہ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ ان الفاظ کے اضافے کا معاملہ بھی ایک داستان ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چند اہل علم نے غلط فہمی سے اسے اپنی کتابوں میں نقل کردیا اور ان کے بعد میں آنے والے دیگر اہل علم بھی اصل کتاب سے مراجعت کیے بغیر حوالہ دیتے رہے۔ مثلاً شیخ محمد بن مقبول الاہدل یمنی(متوفی ۱۲۵۸ھ) نے سب سے پہلے اپنے رسالہ سنیۃ رفع الیدین فی الدعا بعد الصلاۃ المکتوبۃ میں اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے نقل کیا۔ اسی طرح شیخ عبد الحیی لکھنوی نے اپنی کتاب النافع الکبیر کے آخر میں فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کے ثبوت کے لیے اس سے ملتی جلتی روایت ابن السنی کی سند سے ذکر کی۔ پھر ابن ابی شیبہ ہی کی روایت کی بنیاد پر سید نذیر حسین دہلوی، محمد عبد الرب ، سید حسین احمد وغیرہ نے بھی فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ دیکھئے فتاویٰ نذیریہ،ج:۱،ص:۵۶۶، ۵۷۰۔
اسی طرح حافظ عبداللہ روپڑی نے بھی ابن ابی شیبہ کی اس روایت کے پیش نظر فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے ثبوت کا فتویٰ دیا۔ دیکھئے فتاویٰ اہل حدیث،ج:۲،ص:۱۹۰ تا۱۹۳۔ اسی طرح محمد علی المالکی (متوفی:۱۳۶۶ھ) نے اس کتاب کی تلخیص میں، پھر ظفر احمد تھانوی نے انہی کا تتبع کرتے ہوئے اعلاء السنن (۱۶۴/۴) میں اور علامہ بنوری نے معارف السنن(۱۲۳/۳) میں اسے ذکر کیا،حالانکہ اصل کتاب میں وہ الفاظ ہی نہ تھے کہ جن کی بنیاد پر مسئلہ مذکور ثابت کیا جا رہاتھا۔ مذکورہ بالا یہ تفصیل شیخ ابو غدہ عبدالفتاح نے اپنی تالیف ثلاث رسائل فی استحبب الدعائ،ص:۱۳۸ تا ۱۴۰ میں رقم کی ہے۔(محدث)
یہ حدیث ابوداود، نسائی، ترمذی اور مسنداحمد وغیرہ میں بھی ہے مگر ان میں بھی مذکورہ الفاظ نہیں۔
۳۔ ان حضرات کا استدلال حضرت ابوہریرہ کی اس روایت سے بھی ہے کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر یہ دعاکی:
’ اللہم خلص الولید بن الولید وعیاش بن ابی ربیعۃ ... الخ‘ " تفسیر ابن کثیر ۵۵۵/۱
اس روایت میں کئی باتیں محل نظرہیں...اوّل، تو اس میں بھی اجتماعی دعا کا ذکرنہیں۔ ثانیاً، اس میں راوی علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔ ثالثا ً،اس روایت کی تین سندیں اور بھی ہیں جن میں رکوع کے بعد اس دعا کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن زید کو روایت میں وہم ہوا ہے کیونکہ مذکورہ دعا قنوتِ نازلہ تھی۔
۴۔ ان حضرات کا استدلال فضل بن عباس سے مروی اس روایت سے بھی ہے کہ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نماز دو رکعت ہے۔ ہر دو رکعت میں تشہد بیٹھو یعنی سلام پھیرو۔ خشوع و خضوع اور اطمینان کرو پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے ربّ کی طرف سیدھے پھیلاو اور یاربّ یاربّ کہو۔ جو شخص ایسا نہیں کرے گا، اس کی نماز ناقص ہوگی، ناقص ہوگی۔ اور ایک دوسری روایت میں اس شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ایسا ایسا ہے۔‘‘ سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی التَّخَشُّعِ فِی الصَّلاَۃِ،رقم: ۳۸۵
یہ روایت مسنداحمد، ترمذی، ابویعلی اور ابن خزیمہ وغیرہ میں ہے۔ اس کے بھی متعدد جوابات ہیں:
۱۔ اس کی سند میں عبداللہ بن نافع بن ابی العمیاء مجہول راوی ہے۔
۲۔ اس روایت کا تعلق نفلی نماز سے ہے کیونکہ فرض نماز تو تین اور چار رکعت بھی ہوتی ہے۔ ائمہ حدیث ابوداود، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور بیہقی اس کو ’’باب صلوٰۃ اللیل والنہار‘‘کے تحت لائے ہیں اور امام ترمذی نے اس کو ماجاء فی التخشع فی الصلاۃ میں ذکرکیا ہے۔
۳۔ اگر اس روایت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس میں اجتماعی دعا کا ذکر ہی نہیں کیونکہ اس میں تو سب صیغے واحد کے ہیں۔
۵۔ ان لوگوں کا استدلال حضرت عبداللہ بن زبیر کے ایک اثر سے بھی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو سلام پھیرنے سے پہلے ہاتھ اٹھائے دیکھا تو کہا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے تھے۔‘‘ مجمع الزوائد
واقعہ کے سیاق سے ظاہر ہے کہ یہ آدمی دوسروں کے سامنے انفراداً نماز پڑھ رہا تھا۔ اس لئے یہ قصہ نفلی نماز کا ہے، نہ کہ فرض کا۔ بنا بریں زیر بحث مسئلہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
۶۔ نیز ان کا استدلال اس روایت سے بھی ہے کہ جو آدمی ہر نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہے:اللہم إلٰہی وإلٰہ إبراہیم...الخ تو اس کے ہاتھوں کو اللہ نامراد نہیں پھیرتا۔(عمل الیوم واللیلہ از ابن السنی:ص ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی سند میں راوی اسحق بن خالد ضعیف ہے اور عبدالعزیز بن عبدالرحمن بھی اس میں سخت ضعیف ہے اور تیسرا راوی خصیف بن عبدالرحمن کمزور حفظ والا (سیی الحفظ) ہے یعنی اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
۷۔ بعض لوگ اس روایت سے بھی استناد لیتے ہیں کہ
’’جو شخص کسی قوم کا امام ہو تو اسے اپنے لئے ہی دعا نہیں کرنی چاہئے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے قوم کی خیانت کی۔‘‘ مسنداحمد،سنن أبی داود،بَابٌ أَیُصَلِّی الرَّجُلُ وَہُوَ حَاقِنٌ؟،رقم:۹۰ ، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی کَرَاہِیَۃِ أَنْ یَخُصَّ الإِمَامُ نَفْسَہُ بِالدُّعَاء ِ،رقم:۳۵۷
اس کا جواب یہ ہے کہ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح(۶۳/۱) میں اور علامہ البانی نے ضعیف الجامع میں اس کو ضعیف کہا ہے۔(۲۵۶۵)
بفرضِ تسلیم، اس کا تعلق اندرونِ نماز دعاوں سے ہے، نماز سے فراغت کی دعاوں سے نہیں۔ دوسری طرف امام ابن قیم نے‘‘زاد المعاد‘‘میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ تمام نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں بصیغہ مفرد ہیں تو پھر مقتدیوں کی شرکت کا کیا معنی ہوا، یہ بھی غور طلب معاملہ ہے۔ اور ابن خزیمہ نے حدیث ِہذا کو غیر ثابت کہا ہے اور دعائِ استفتاح اللہم اغسلہ من خطایای... پر انہوں نے باب قائم کیا ہے کہ امام کو اپنے لئے خصوصی دعا کرنے کی رخصت ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح ابن خزیمہ (۳/۶۳) اور امام ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث دعائِ قنوت وغیرہ کے بارے میں ہے۔ زاد المعاد:ج۱، ص:۲۶۴
نیز اس حدیث میں صرف امام کے لئے ہدایت ہے کہ اپنے لئے خاص دعا نہ کرے، اس میں یہ تو نہیں کہ مقتدی بھی ساتھ دعا کریں، لہٰذا اس حدیث سے بھی اجتماعی دعا پر استدلال کرنا ناقابل قبول ہے اور پھر یہ خطاب بحالت ِامامت ہے، سلام پھیرنے کے بعد والی کیفیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
عرصہ ہوا،گلبرگ لاہور میں ایک تقریب تھی جس میں استاذِ مکرم حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ ، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ اور راقم الحروف شریک تھا۔ اس وقت مغرب کی نماز محدث گوندلوی نے پڑھائی، بعد میں کسی نے کہا:حضرت دعاء کیجئے تو انہوں نے فرمایا کہ میری امامت ختم ہوچکی ہے۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ امام اور مقتدی اب اِقتداکی پابندی سے آزاد ہیں، اس لئے اجتماعی دعا کی ضرورت نہیں۔
سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، غالباً وہ فضل بن عباس کی روایت ہے جس کی حقیقت پہلے واضح ہوچکی۔ بعض لوگوں کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنے پر تعامل اُمت ہے۔اب بالاختصار اس کی حقیقت کو ملاحظہ فرمائیں :
کتب ِاحادیث میں مشہورقصہ ذوالیدین سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عہد ِنبوت میں نماز کے بعد اجتماعی دعا کا تصور نہ تھا۔
صحیح بخاری کے الفاظ یوں ہیں: ’وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ فَقَالُوا : أَقَصُرَتِ الصَّلاَةُ؟ ‘
یعنی ’’مسجد سے جلدی نکلنے والے مقتدی یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ کیا نماز کم کردی گئی ہے۔‘‘ صحیح البخاری،بَابُ مَنْ یُکَبِّرُ فِی سَجْدَتَیِ السَّہْوِ،رقم:۱۲۲۹
اور صحیح بخاری میں باب التسلیم کے تحت حدیث ہے کہ حضرت اُمّ سلمہؓ نے فرمایا:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو عورتیں فوراً اُٹھ کھڑی ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے سے وقفہ کے لئے تشریف رکھتے۔‘‘ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے بیٹھے رہتے تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے گھروں کو رخصت ہوجائیں۔‘‘ صحیح البخاری،بَابُ التَّسْلِیمِ،رقم:۸۳۷
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سلام پھیرنے کے باب کے تحت نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے رہنے کا عام حالات میں اس وقت معمول نہ تھا۔ اس سے نماز سے فراغت کے بعد اجتماعی دعا کا تصور ناپید ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری کے باب الذکر بعد الصلوٰۃ کی احادیث پر غور کیجئے یہاں صرف ذکرو اذکار کی تصریح ہے جس سے اجتماعی دعا کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے اور صحیح بخاری کے باب مکث الإمام فی مصلاہ بعد السلام اور باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ فتخطا ہم پر بار بار غور فرمائیے، حقیقت ِحال منکشف ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ
ابن ابی شیبہ (۱/۳۰۲) میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سلام پھیرنے کے بعد اِمام کے بیٹھے رہنے کو بدعت قرار دیتے تھے اور عبداللہ بن عمر نماز کے اِتمام پر فوراً کھڑے ہوجاتے یا جاے نماز سے اُٹھ جاتے۔ کتاب الصلوٰۃ باب من قال یستحب إذا سلم ان یقوم وینحرف:۱/۳۰۱
حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی سلام کے بعد ایسی کیفیت ہوتی، گویا گرم پتھر پر تھے۔ فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے۔ ابن ابی شیبہ :۱/۳۰۲
نیز صحیح حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ
’کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ لَمْ یَقْعُدْ إِلَّا مِقْدَارَ مَا یَقُولُ: اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ وَفِی رِوَایَةِ ابْنِ نُمَیْرٍ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ‘صحیح مسلم:کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلوٰة وبیان صفته،رقم:۵۹۲
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد اللہم انت السلام… الخ ‘‘ پڑھنے کے مقدار برابر بیٹھتے۔‘‘
اور حضرت ابن مسعودؓ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس طرح مروی ہے۔ اگرچہ اہل علم نے اس حدیث کی مختلف توجیہیں کی ہیں مگر ایک ظاہری توجیہ یہ بھی ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ سلام پھیرنے کے بعد آپ فوری تشریف لے جاتے۔
حسن بصری سلام کے بعد پیچھے ہٹ جاتے یا فوراً اُٹھ کر چلے جاتے۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۳۰۲/۱
اور طاوس جب سلام پھیرتے تو بلا توقف فوراً اُٹھ کر چلے جاتے، بیٹھتے نہیں تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۳۰۲/۱
ابن مسعودؓ جب سلام پھیرتے تو صف سے اُٹھ کر مشرق یا مغرب کی طرف چلے جاتے۔ مصنف عبدالرزاق:رقم۲،۳۲۲۱/۲۴۳ ، مصنف ابن ابی شیبہ:۳۰۲/۱
نسائی میں ہے کہ حضرت انس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ہلکی اور پوری پڑھا کرتے تھے۔پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی اُٹھ جاتے، پھر میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، وہ بھی سلام کے بعد کود کر اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے، گویا کہ گرم پتھر پر تھے۔ صحیح سنن نسائی:رقم:۷۹۴ للالبانی ... ابوالزناد کہتے ہیں کہ میں نے خارجہ بن زید سے سناکہ وہ ان اماموں کے عمل کو کوتاہی شمار کرتے تھے جو سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے رہتے ہیں اور فرماتے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ امام اٹھ کر فوراً چلا جائے۔ سنن کبریٰ بیہقی:۱۸۳/۶...شعبی اور ابراہیم نے بھی بیٹھے رہنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ سنن کبریٰ بیہقی۱۸۲/۲
2 ...اور یہ بات حضرت عمر سے بھی منقول ہے۔ سنن کبریٰ بیہقی:۲/۱۸۲ ... فقہ مالکی کی کتاب المدونۃ میں امام مالک کا قول منقول ہے کہ امام کو سلام کے فوراً بعد اُٹھ کر چلے جانا چاہئے، بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ ا ن آثار کو ذکر کرنے سے مقصود عملاً اجتماعی دعا کی نفی ہے ورنہ اگر کوئی بیٹھا رہے تو اسکابھی جواز ہے جس طرح کہ دیگر روایات میں تصریح ہے ۔
فتوی اللجنۃ الدائمۃ سعودی عرب میں کبار علما پر مشتمل اللجنۃ الدائمۃ نے بھی اس بارے میں فتوی صادر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں
’’عبادات کی جملہ اقسامِ توقیفی ہیں۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی ہیئات اور کیفیات کا طریق کار کتاب و سنت سے ثابت ہونا چاہئے۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کی مزعومہ صورت کا ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سے نہیں ملتا۔ ساری خیر اسی میں ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی پیروی کریں۔
نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو وِرد و و ظائف پڑھتے تھے، وہ مستند دلائل سے ثابت ہیں بعد میں انہی وظائف پر آپ کے خلفائِ راشدین،صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین کار بند رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف جو طریقہ ایجاد کیا جائے گا، وہ مردود ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہوردّ جو دین میں نیا طریقہ ایجاد کرے، وہ ناقابل قبول ہے۔
جو امام سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور اس کے مقتدی بھی ہاتھ اٹھائے آمین، آمین کہتے ہیں، ان حضرات سے مطالبہ کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دلیل پیش کریں ورنہ اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں، وہ ناقابل قبول اور مردود ہے۔ جس طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿قُل ھَاتُوا بُرْھٰٰنَکُم إِنْ کُنتُم صَادِقِیْنَ﴾ (النمل:۶۴) سنت سے ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی سکی جو ان کے دعویٰ کی مستند بن سکے۔‘‘ فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ :۹۹/۷
اس فتویٰ کو میں نے اپنی عربی تصنیف جائزۃ الاحوذی فی التعلیقات السلفیۃ علی سنن الترمذی میں بھی درج کیا۔ راقم السطور نے بلادِ عربیہ کا بالعموم اور سعودی عرب کا بالخصوص متعدد مرتبہ دورہ کیا ہے، کسی مقام پرنماز کے بعد اجتماعی دعا کا عمل نظر نہیں آیا۔ دراصل یہ برصغیر میں ہندوستانی اور پاکستانی بعض سلفیوں اور اکثرحنفیوں کی ایجاد ہے۔ اس کو دین کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ان ممالک میں رہائش پذیر سب جاہل اور مسئلہ ہذا سے نابلد ہیں، حقیقت ِحال اس کے برعکس ہے۔( حافظ صاحب کے تفصیلی فتویٰ سے یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اجتماعی دعا کی مطلق طور پر نفی کررہے ہیں بلکہ بعض استثنائی صورتوں میں آپ اجتماعی دعا کے قائل ہیں مثلاً ہفت روزہ الاعتصام (ج۵۴/عدد۱۶، بابت ۲۶۔اپریل تا ۲ مئی ۲۰۰۲ء ،صـ:۹) میں حافظ صاحب ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارش کے لیے اجتماعی دعا کی تھی چنانچہ صحیح بخاری میں ہے: ’ فَرَفع رسول الله یدیه یدعو و رفع الناس أیدیهم معه یدعون…‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقتِ حاجت یا ضرورت اور کسی سبب کی بنا پر اجتماعی دعا کا جواز ہے۔
اسی طرح ایک اور سائل کا جواب دیتے ہوئے حافظ صاحب رقم طراز ہیں: ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما تھے کہ عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے تو اس امت کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ لہٰذا آپ اور دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ توبہ کریں۔ علقمہ کا بیان ہے کہ آپ نے قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھائے اور فرمایا : اللھم انی استغفرک و أتوب الیک اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھائے۔
اسی طرح موصوف اپنے ایک فتویٰ(الاعتصام،۱۲/ جنوری ۲۰۰۱ئ،ص:۱۱) میں رقم طراز ہیں کہ ’’ہمارے شیوخ محدث روپڑی اور محدث گوندلویa نماز کے بعد اجتماعی دعا کے عملاًقائل و فائل نہ تھے، الا یہ کہ کسی کی طرف سے دعا کی درخواست ہو۔ چنانچہ مقتدیوں میں سے کسی کے تقاضے پر یا امام کی کسی ضروت اور مطالبے پر اجتماعی دعا کرنا جائز ہے جب کہ اسے نمازوں میں معمول بنا لینا خلاف سنت ہے۔‘‘ (محدث) ہم سب کا فرض ہے کہ اس پر غوروفکر کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَالَّذینَ جـٰہَدوا فینا لَنَہدِیَنَّہُم سُبُلَنا﴾(العنکبوت:۶۹) ’’اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی، ہم ان کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے۔‘‘
بنابریں کتاب و سنت کے سچے اور مخلص داعی کا فرض ہے کہ قائلین اور فاعلین سے اس سلسلہ میں نص صحیح وصریح کا مطالبہ کرے۔ بصورتِ دیگر ان کو اپنے غلط موقف سے رجوع پرمجبور کرے۔ والتوفیق بیداللہ دیگر ضمنی سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
۱۔ اہلحدیث کا مسلک چونکہ کتاب و سنت ہے بسااوقات نصوص کے فہم کی بنا پر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے، اس بنا پر یہ فعل قابل مذمت نہیں۔
۲۔ جب یہ عمل سنت ِصحیحہ سے ثابت نہیں تو بلا شبہ بدعت ہے۔ مخالفین کے دلائل کی بنا شرعی عمومات پر ہے، جو محل اختلاف میں مفید نہیں۔
۳۔ ظاہر ہے کہ جو شئے سنت سے ثابت نہیں، وہ بدعت ہے۔
۴۔ عبادات میں اصل توقف ہے، اجتہاد کی گنجائش نہیں۔
۵۔ انفرادی دعا کا آدمی کو ہر وقت اختیار ہے، جس مناسب وقت میں چاہے مانگ سکتا ہے لیکن ہمیشہ ایک وقت کا التزام نہیں کرنا چاہئے۔
۶۔ جمعہ کی نماز کے بعد والی دعا کا حکم بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا جیسا ہے، تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔
اس مسئلے کے بارے میں ’’کتاب الاعتصام‘‘از امام شاطبی لائق مطالعہ ہے۔
اللہ ربّ العزت جملہ اہل اسلام کو کتاب وسنت کے صحیح فہم کی توفیق عطا کرے۔ آمین
اس موضوع پرایک مخلص حنفی دوست(محترم محمد سرور صاحب نے یہ تحریر ماہنامہ القاسم(ج:۶/عدد:۱۱،مارچ:۲۰۰۳ئ،ص:۱۹) میں بھی شائع کرائی ہے۔) اشاعت ِدین کا جذبہ صادقہ رکھنے والے نے درج ذیل تحریر میرے سپرد کی ہے، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’آپ کو معلوم ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نماز کے بعد اجتماعی دعا کبھی بھی نہیں ہوتی اور نہ دعا بعد الفرائض میں رفع یدین ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی اہل حدیث کی اکثروبیشتر مساجد میں نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ دعا بعد الفرائض انفراداً رشید احمد رحمہ اللہ (بانی ہفت روزہ ’’ضربِ مومن‘‘اور روزنامہ ’’اسلام‘‘) اپنی مشہور تالیف ’’نمازوں کے بعد دعا‘‘یعنی زبدۃ الکلمات فی حکم الدعاء بعد الصلوات میں احادیث، عباراتِ فقہ، الروایات المزیدۃ، العبارات المزیدۃ کے تحت پوری تحقیقات کے بعد مندرجہ ذیل فتویٰ صفحات ۱۹، اور۲۰ پر صادر فرما چکے ہیں۔
حاصل کلام: زبدۃ الکلمات مع ضمیمہ میں مندرجہ تحقیقات کا حاصل یہ ہے:
1۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کا مروّجہ طریقہ بالاجماع بدعت ِقبیحہ ہے۔
2۔ دعا بعد الفرائض میں رفع یدین نہیں، إلا ان یدعو احیانا لحاجۃ خاصۃ (الا کہ کبھی کسی خاص ضرورت کے لئے ایسا کیا جائے)
3۔ امام مالک اور امام طرطوشی اور ان دونوں کے اصحاب رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی امام کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا لازم ہے۔
4۔ عندالاحناف بھی امام کا فجر و عصر کے سوا نماز کے بعد تین بار استغفار اور دعا اللہم انت السلام... الخ سے زیادہ دیر بیٹھنا مکروہ ہے۔ اس دعا میں نہ رفع یدین ہے، نہ اجتماعیت۔ امام و مقتدی ہر شخص بلارفع یدین سراً وانفراداً یہ مختصر سی دعا مانگ کر سنتوں میں مشغول ہوجائے۔
فجر و عصر کے بعد اس شرط سے بیٹھنا جائز ہے کہ اوراد و اَدعیہ میں امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہے۔ نماز کے بعد کی دعا میں اجتماعیت بدعت ہے۔ امام ہو یا مقتدی ہرشخص اپنے طور پر انفراداً، سراً بلا رفع یدین دعا مانگے۔ فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین نہیں، البتہ کبھی کبھار کسی خاص ضرورت سے کوئی دعا مانگنا چاہے تو رفع یدین کرسکتا ہے مگر دوسروں کے سامنے التزام نہ کرے تاکہ کسی کو فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین کا شبہ نہ ہو۔
5۔ نوافل کے بعد انفراداً ہاتھ اٹھا کر طویل دعا مسنون ہے۔
6۔ دعا کے لئے اجتماع بدعت ہے، البتہ کسی دوسرے مقصد کے لئے اجتماع ہو تو اس میں اجتماعی دعا جائز ہے۔ واللہ الہادی إلی سبیل الرشاد وہو العاصم من المحدثات فی الدہن والبدع والضلال ( ۹ربیع الاوّل ۱۴۰۹ھ)
اس تالیف کے صفحات ۲۰ تا ۲۴ پر مذکورہ بالا فتویٰ کی موافقت اور تائید میں عصر حاضر اور ماضی قریب کے اکابر کی تحریرات بھی کلمۃ الجامع کے عنوان کے تحت پیش کی گئی ہیں۔
مندرجہ بالا فتویٰ مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ کے بھی عین موافق معلوم ہوتا ہے :
﴿ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٥٥﴾... سورة الاعراف
﴿وَاذكُر رَبَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّعًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ مِنَ القَولِ بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ وَلا تَكُن مِنَ الغـٰفِلينَ ﴿٢٠٥﴾... سورةالاعراف
اگرچہ کچھ حنفی دیوبندی مساجد میں بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا اور دعا بعد الفرائض میں رفع یدین کی بدعت آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے لیکن حنفی مساجد میں اس فتویٰ پر عمل درآمد کی رفتار بہت سست ہے جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ فتویٰ مذکورہ بالا تالیف کے اَوراق میں ہی دَب کر رہ گیا ہے، عوام کے سامنے آیا ہی نہیں۔ اس تالیف میں بھی یہ فتویٰ، فتویٰ کے عنوان سے نہیں بلکہ ’’حاصل کلام‘‘کے عنوان سے چھپا ہے۔ اس طرح یہ فتویٰ عوام کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس فتویٰ کی خوب تشہیر ہو تاکہ لوگ اس پر عمل درآمد کی طرف متوجہ ہوں۔
امید ہے کہ آپ بھی مذکورہ بالا فتویٰ سے پوری طرح متفق ہوں گے۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس فتویٰ کو اپنے تائیدی نوٹ کے ساتھ دارالافتاء اور احکام و مسائل کے زیر عنوان بالترتیب ماہنامہ ’’محدث‘‘اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘کی قریبی اشاعت میں شائع کروا کر عوام کو اس بدعت کے چنگل سے نجات حاصل کرنے میں مدد ورہنمائی فرماکر ثوابِ دارین سے مستفید ہوں۔‘‘ (چوہدری محمد سرور،جوہرٹاون لاہور)
۱۔ التحفۃ المرغوبۃ فی افضلیۃ الدعاء بعد المکتوبۃ از شیخ محمد ہاشم سندھی
۲۔ المنح المطلوبۃ فی استحباب رفع الیدین فی الدعاء بعد الصلوت المکتوبۃ از حافظ احمد بن محمد بن صدیق الغماری المغربی
۳۔ سنیۃ رفع الیدین فی الدعاء بعد الصلوات المکتوبۃ از محمد بن عبدالرحمن الاہدل یمنی (شیخ ابو غدہ نے ان تینوں رسالوں کو اپنی تعلیق و تخریج کے ساتھ یکجا کرکے شائع کیا ہے)
۴۔ مسلک السادات إلی سبیل الدعوات بعد الصلوات المکتوبات از شیخ محمد علی المالکی المکی
۵۔ استحباب الدعوات عقیب الصلوات از مولانا محمد اشرف علی تھانوی
۶۔ حسن التفہم والدرک لمسالۃ الترک از عبداللہ الغماری
۷۔ الاذکار المسنونۃ بعد الصلوات المکتوبۃ از ظفر الحسن
۸۔ التحقیق الحسن فی نفی الدعاء الاجتماعی بعد الفرائض والسنن از عماد الدین حنفی دیوبندی بلوچستانی
۹۔ زبدۃ الکلمات فی حکم الدعا بعد الصلوات از مفتی رشید احمد حنفی
۱۰۔ النفائس المرغوبۃ فی حکم الدعا بعد المکتوبۃ از مفتی کفایت اللہ
۱۱۔ فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کے فضائل و دلائل‘‘از عبدالجبار سلفی
۱۲۔ الدعا ء ؛ روح عبات از بشیر الرحمن سلفی
۱۳۔ اجتماعی دعا کی شرعی حیثیت از رانا محمد اسحق رحمہ اللہ
۱۴۔ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا از مولانا محمد عبد المعبود
۱۵۔ اجتماعی دعا از مولانا صفدر عثمانی
٭ ضمنی طور پر درج ذیل علما نے اجتماعی دعا پربحث کی ہے ، چند ایک کا تذکرہ حسب ِذیل ہے:
۱۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فی مجموع الفتاویٰ (۲۲/۵۱۹) نیز الفتاویٰ الکبریٰ ( ۱/۱۸۸تا ۲۰۵)
۲۔ امام شاطبی فی الاعتصام ( ۱/۲۵۲،۲۶۹ ،۳۵۳،۳۶۷)
۳۔ ابن قیم فی زادالمعاد (۱/۲۵۷)
۴۔ ابن الحاج فی المدخل ( ۲/۲۷۶)
۵۔ شیخ ابن باز فی فتاویٰ و تنبیہات(ص:۳۱۱)
۶۔ شیخ صالح بن عثیمین فی فتاویٰ (۱/۳۶۷، ۳۶۸)
۷۔ سید نذیر حسین محدث دہلوی فی فتاویٰ نذیریہ (ج۱ ص۵۶۶ تا۵۷۰)
۸۔ حافظ عبداللہ محدث روپڑی فی فتاویٰ اہلحدیث (ج۲ ص۱۹۰ تا۱۹۳)
۹۔ عبدالروف بن عبدالحنان فی القول المقبول فی شرح و تعلیق صلوٰۃ الرسول(ص۴۸۹ تا۵۰۰)
٭ علاوہ ازیں درج ذیل رسائل و جرائد میں بھی اس موضوع پر بحثیں موجود ہیں:
۱۔ الاعتصام ج ۵۴عدد۱۶ ؛ ۱۲ تا ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ ئ(ص ۱۰تا۱۱)
۲۔ ایضاً عدد۷؛ ۲۳فروری ۲۳تا یکم مارچ، (ص:۱۳)
۳۔ ایضاً عدد۱۹؛ ۲۵ تا ۳۱ مئی( ص ۷تا ۱۱)
۴۔ ایضاً عدد۲۲ ؛ ۱۵ تا ۲۱ جون ۲۰۰۲ء (ص۱۱ تا۱۵ )
۵۔ ماہنامہ شہادت ج۱ عدد۳ ؛مارچ۲۰۰۲ ء (ص۴۰)
۶۔ ایضاً عدد ۱۰؛ اکتوبر ۲۰۰۲ء (ص ۴۰)
۷۔ ماہنامہ القاسم ج۶ عدد۱۱؛ مارچ۲۰۰۳ ء (ص۱۹)
۸۔ ایضاً عدد۱۲؛ اپریل ۲۰۰۳ئ(ص۱۶) (فہرست تیارکردہ :ادارہ محدث)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب