السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اجتماعی دعا کسے کہتے ہیں؟
1۔امام فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز سے دعا کرتا ہے مقتدی آمین آمین کہتے جاتے ہیں۔
2۔ امام فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دل میں دعا کرتا ہے مقتدی بھی دل میں اپنی اپنی دعا کرتے ہیں۔ ان دونوں میں کونسی اجتماعی دعا کہلائے گی یا دونوں اجتماعی ہیں۔ سنت سے کس طرح دعا مانگنا ثابت ہے یا بالکل کوئی ثبوت نہیں؟ کیونکہ کئی علماء اجتماعی دعا کو بدعت کہتے ہیں۔ مثلاً مولانا برکات صاحب نے لکھا ہے کہ جو اجتماعی دعا کراتا ہے اس سے ثبوت مانگاجائے۔ جب کہ مولانا صادق صاحب سیالکوٹی نے ’’صلوٰۃ الرسول‘‘، ص:۳۱۲، بحوالہ فتاویٰ نذیریہ از ابن ابی شیبہ سنت لکھا ہے۔ اگر ابن ابی شیبہ میں کوئی حدیث ہے تو اس کی کیا پوزیشن ہے۔ اجتماعی دعا سنت یا بدعت کیا ہے؟ احناف کے ہاں بھی ظہر، مغرب اور عشاء میں امام قبلہ رُخ ہی رہ کر ہاتھ اٹھا کر صرف اللھم انت السلام… ہی پڑھتا ہے جبکہ فجر اور عصر کے وقت مقتدیوں کی طرف رُخ کرکے بعد از اذکار ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جاتی ہے۔ براہِ مہربانی سب کی رہنمائی اور آگاہی کے لیے پوری وضاحت کریں کہ اجتماعی دعا کی کیا تعریف ہے یہ سنت ہے یا کہ بدعت۔ اگر کوئی کبھی کبھار اجتماعی دعا کرے تو کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور صورتیں اجتماعی دعا ہی کی شکلیں ہیں۔
ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا یا بغیر ہاتھ اٹھائے کرنا دونوں طرح سنت سے ثابت ہے۔ انفرادی طور پر دعا کرنا بلاشبہ ثابت ہے اور اجتماعی دعا کا ثبوت بوقت ِ ضرورت ہے۔ جیسے بارش وغیرہ کی طلب کے لیے اور جہاں تک تعلق ہے نماز کے بعد اجتماعی دعا کا یہ محل تأمّل (قابلِ غور) ہے اور انفرادی دعا کا کئی ایک احادیث سے ثبوت ملتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:’’باب الدعا بعد الصلوٰۃ‘‘ یعنی نماز سے فراغت کے بعد دعا کرنا مشروع ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ مصنف کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے، جو نماز کے بعد دعا کو غیر مشروع سمجھتے ہیں۔ اسی طرح داخلِ نماز(نماز کے دوران میں) بھی دعا کے چھ مقامات ہیں۔
(۱) تکبیر تحریمہ کے بعد۔ (۲) حالت اعتدال میں۔ (۳) بحالت رکوع۔ (۴) بحالتِ ِ سجدہ۔ (۵) دو سجدوں کے درمیان۔ (۶) تشہد میں (۷) اسی طرح قنوت میں بھی دعا ہے۔(۸) قرأت کے وقت جب کہ مصلّی(نمازی) کا گزر آیت رحمت یا آیت عذاب سے ہو۔فتح الباری:۱۱/۱۳۲
دعا کے جملہ آداب میں سے یہ بھی ہے، کہ فضیلت کے اوقات کا اہتمام کیا جائے۔ مثلاً: بحالتِ سجدہ اور اذان کے وقت نیز باوضو ہو، نماز سے فراغت پا چکا ہو۔ قبلہ رُخ ہو اور دعا میں رفع یدین کرے۔ گناہوں کا اقرار، توبہ کا اظہار اور خلوص کا مظاہرہ کرے۔ دعا کا آغاز اللہ کی حمد و ثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے ہو اور اللہ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ سوال کیا جائے۔الفتح:۱۴۱/۱۱
سائل نے دو متضاد فتووں کے حوالہ سے نماز کے بعد اجتماعی دعا کے بارے میں استفسار کیا ہے۔ بلکہ جواز پر دال بعض حوالہ جات بھی صلوٰۃ الرسول مؤلفہ مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ سے نقل کیے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید تحقیق کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ صلوٰۃالرسول کو قبولیت عامہ حاصل ہے۔ اسی بناء پر پاک و ہند میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ بلکہ مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ اس کی شہرت کے پیشِ نظرشاگرد رشید حافظ عبدالرؤف بن عبدالحنان بن حکیم محمد اشرف سندھو فارغ التحصیل (شریعت کالج مدینہ یونیورسٹی) مقیم شارجہ (متحدہ عرب امارات) نے اس پر تعلیق اور تخریج کا اہتمام فرمایا ہے۔ جس سے اس کے حسن میں مزید اضافہ ہوا ہے: یزیدک وجہہ حسنا … اذا ما زدتہ نظرا
اللہ رب العزت ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرما کر عُقبیٰ کے لیے ذریعۂ نجات بنائے۔ آمین! امید ہے بارش کا پہلا قطرہ ثمر آور ثابت ہو گا۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
یہی وہ اسلوب ہے جو اہل رائے کے بالمقابل فقہاء محدثین(اہلحدیث) کا طرَّۂ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ اسی امتیازی حیثیت کے حاملین نے دیگر مذاہب پر اپنی جرأت اور قوت و ہمت کا لوہا منوا کر شرفِ فوقیت حاصل کیا، جو صرف اس امت کا خاصہ ہے۔
جملہ تفصیل ’’الفصل بن حزم‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’مقدمہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے : ’ الإِسنَاد مِنَ الدِّین لَولَا الاِسنَادُ لَقَالَ مَن شَائَ مَا شَائَ ‘
اسی طرح مقدمہ ’’جامع الاصول‘‘ میں سفیان ثوری کا قول ہے:’’سند مومن کا ہتھیار ہے۔ جب اس کے پاس ہتھیار نہیں ہو گا، تو دشمن سے جنگ کیسے کرے گا۔‘‘
آفرین ان فحول پر جنھوں نے ہزاروں انسانوں کے سیرت و کرداراور احوال و سیر کو شیشۂ مرئی میں ڈھال کر رہتی دنیا تک پوری امت پر عظیم احسان فرمایا ہے۔ ’ اُولٰئِكَ آبائی فجئنی بِمِثلِهِم‘ بہرصورت سائل نے ’’صلوٰۃ الرسول‘‘ کے واسطہ سے بحوالہ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ از ابن ابی شیبہ جو حدیث نقل کی ہے، اس کے بارے میں گزارش ہے۔ فی نفسہ روایت تو حسن درجہ ۔ لیکن اس میں الفاظ ’’ وَرَفَعَ یَدَیہِ ، وَدَعَا‘‘ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔موجود نہیں۔ بناء بریں اس روایت کو بطورِ دلیل پیش کرنا درست نہیں۔ ملاحظہ ہو! ابن ابی شیبہ(۱/۳۰۲)
مذکورہ کتاب میں ایک روایت حضرت انس سے دعویٰ پر دلیل کے طور پر پیش کی ہے۔ لیکن وہ بھی سخت ضعیف ساقط الاعتبار (اس کا اعتبار نہیں) ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو! ’’ صلوٰۃ الرسول مع التعلیقات والحواشی‘‘ حافظ عبدالرؤف،ص:۳۳۲ تا ۳۷۷، اور حنفیوں کے جس طریقہ کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ یہ اختراعی طریق کار ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور اجتماعی دعا صرف منصوص مقامات پر درست ہے۔ اس کے علاوہ نہیں۔ (کَمَا سَبَقَ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب