کیا ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ اور بسم اللہ سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ جواب مدلل دیں۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾
حافظ ابن حجر نے کچھ احادیث جمع فرمائی ہیں۔ لکھتے ہیں:
وَعَنْ أَنَسٍ اَنَّ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم وَاَبَا بَکْرٍ، وَعُمَرَ کَانُوْا یَفْتَتِحُوْنَ الصَّلَاة بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ مُتَّفَقٌ عَلَیْه۔ زَادَ مُسْلِمٌ: لاَ یَذْکُرُونَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِیْ اَوَّلِ قِرَاءة ، وَلاَ فِیْ آخِرِھَا۔ وَفِیْ اُخْرٰی لاِبْنِ خُزَیْمَة: کَانُوْا یُسِرُّوْنَ۔ وَعَلَی ھٰذَا یُحْمَلُ النَّفْیُ فِیْ رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ خِلاَفًا لِمَنْ اَعَلَّھَا۔ وَعَنْ نُعَیْمِ المُجْمِرِ قَالَ: صَلَّیْتُ وَرَآئَ اَبِیْ ھُرَیْرَة فَقَرَاَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ثُمَّ قَرَاَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتَّی إِذَا بَلَغَ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ قَالَ: آمِیْنَ۔ وَیَقُوْلُ کُلَّمَا سَجَدَ ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الجُلُوسِ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ ثُمَّ یَقُولُ اِذَا سَلَّمَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنِّیْ لَاَشْبَھُکُمْ صَلاَة بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم۔ رَوَاہُ النَّسَائِیُّ وَابْنُ خُزَیْمة
[’’اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ الحمد للّٰہِ ربِّ العالمین سے نماز شروع کیا کرتے تھے۔ [متفق علیہ]مسلم میں اتنا زیادہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم شروع یا اخیر میں نہیں پڑھتے تھے اور احمد اور نسائی اور ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اور ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے اور اس پر مسلم کی نفی کو محمول کیاجائے گا۔ بخلاف ان لوگوں کے جو اس کو معلول کہتے ہیں۔ اور نعیم مجمر سے روایت ہے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی اس نے بسم اللہ پڑھی پھر الحمد پڑھی، جب ولا الضالین پر پہنچے تو آمین کہی اور جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے سے اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے مجھے اللہ کی قسم! میری نمازبالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جیسی ہے۔ اسے نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا۔ (بلوغ المرام، کتاب الصلاة،باب صفة الصلاة)