السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش ہے کہ آپ نے الاعتصام کے شمارہ نمبر ۷ ۲۸ ذوالقعدہ ۱۴۲۱ھ جمعۃ المبارک (مطابق ۲۳ فروری تا یکم مارچ ۲۰۰۱ء) میں (ص۔ ۱۳) پر ضروری وضاحت اور شکریہ کے عنوان کے تحت حافظ زبیر علی زئی صاحب کا شکریہ ادا کیا، کہ انہوں نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے اثر کے متعلق آگاہ کیاکہ یہ اثر جامع المسانید ابن کثیر (ص۵۲۵ ج ۷) میں موجود ہے لیکن یہ اثر سلیمان العطار کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس کے متعلق عرض ہے کہ یہ راوی مجہول نہیں۔ اس راوی کا پورا نام سلیمان بن الحسن بن المنہال العطار، ابو ایوب البصری ہے۔حضرت شیخ الاسلام جناب محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’رجال کتاب القراء ۃ خلف الامام للبیھقی‘‘ میں اس کو ذکر کیا ہے اور تحریر فرمایا ہے، کہ :
اَطلَقَ عَلَیهِ اَبُو بَکرٍ الاِسمَاعِیِلِیُّ ’ اَلعَدلَ ‘ کِتَابُ المُعجِمِ لِاَبِی بَکرِ الاِسمَاعِیلِیِّ (۲؍۶۴۷)۔
وَ قَالَ حَمزَةُ بنُ یُوسَفَ السَهمِیُّ: سَأَلتُ اَبَا مُحَمَّدَ بنَ غُلَامٍ الزُّهرِیِّ ، عَن سُلَیمَانَ بنِ الحَسنِ اَبِی اَیُّوبَ العَطَّارِ البَصَرِیِّ، فَقَالَ : هُوَ ثِقَةٌ۔ وَ قَالَ اَیضًا: سَاَلتُ الدَّارُقُطَنِی عَن اَبِی اَیُّوبَ سُلَیمَانَ بنِ الحَسنِ العَطَّارِ البَصَرِیِّ، فَقَالَ : لَا بَأسَ بِهٖ۔ کِتَابُ سُؤَالَاتِ حَمزَةَ بنِ یُوسُفَ السَّهمِیِّ لِلدَّارِقُطَنِی، وَغَیرِهٖ مِنَ المَشَائِخِ (ص ۲۱۷۔۲۱۸۔ رقم الترجمة نمبر ۲۹۴۔۲۹۶)
اس لیے یہ راوی مجہول کیسے ہوا بلکہ قابلِ احتجاج ہوا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا جواب محترم حافظ زبیر علی زئی کے قلم سے ہی ملاحظہ فرمائیں! وہ آپ کے اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ: سلیمان بن الحسن،ابوایوب العطار البصری رحمہ اللہ بلاشبہ ثقہ تھے، تاہم ان کا انتقال ۲۶۲ھ میں ہوا۔ دیکھئے تاریخ بغداد ( ۵۴/۹) المنتظم لابن الجوزی (۱۲ / ۱۸۲) ترجمہ نمبر ۱۶۷۵۔
جب کہ امام طبرانی، عکا شہر میں ۲۶۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ( رحمہ اللہ ) دیکھئے سیراعلام النبلاء (۱۶ /۱۱۹) اور عام کتب میں ترجمۃ الطبرانی۔امام طبرانی رحمہ اللہ کا پہلا سماع ۲۷۳ھ (یعنی تیرہ سال کی عمر) میں ان کے والد نے کرایا۔ (السیر ۱۱۹/۱۶)لہٰذا سلیمان مذکور سے امام طبرانی کا سماع ناممکن و غیر ثابت ہے۔
سندِ مذکور کا راوی سلیمان بن الحسن العطار کوئی دوسرا شخص ہے۔ المعجم الاوسط(۴ /۳۸۹) ح: ۳۶۶۳ میں اس کے ساتھ ’’المصری‘‘ کا لقب موجود ہے۔ جب کہ اس کی کنیت مجھے کہیں نہیں ملی۔ لہٰذا استاذ ِ طبرانی کی جہالت بدستور باقی ہے۔ کتاب الدعا للطبرانی کے محقق ڈاکٹر محمد سعید بن محمد حسن البخاری نے بھی لکھا ہے کہ:
’لَم اَقِف عَلَیہِ‘ (مقدمہ کتاب الدعا ص ۳۳۸ و کتاب امعار،ح: ۲۰۶۱ ابو ایوب البصری کے شاگردوں میں امام طبرانی اور استادوں میں اَبو کَامِلٍ الجَحدَرِی کا نام نہیں ملا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے یہی روایت فُضَیلِ ابنِ سُلَیمَانَ النُّمَیرِی کی وجہ سے السلسلة الضعیفۃ ج ۶ ص ۵۶ حدیث نمبر ۲۵۴۴ پر ذکر کر کے ’’ضعیف‘‘ قرار دی ہے۔ وما علینا الاالبلاغ (زبیر علی زئی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب