السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فرص نمازوں کے بعد جو اذکار پڑھے جاتے ہیں کیا وہ سب کے سب بلند آواز سے پڑھے جائیں گے یا انہیں سراً پڑھنا مسنون ہے؟ مثلاً نماز کے بعد ایک بار اللہ اکبر بلند آواز سے کہنا تو ثابت ہے کیا اَستَغفِرُاللّٰهَ… اَللّٰهُمَّ أَنتَ السَّلَامُ…رَبِّ اَعِنِّی عَلٰی ذِکرِكَ …‘ وغیرہ مسنون اذکار جہراً پڑھے جائیں گے یا انہیں دل میں پڑھا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذامیں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔اکثر اہلِ علم عدم جواز کے قائل ہیں، جب کہ ایک گروہ جواز کا قائل ہے۔بظاہر جواز ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’ اِنَّ رَفَعَ الصَّوتِ بِالذِّکرِ حِینَ یَنصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَکتُوبَةِ، کَانَ عَلٰی عَهدِ النَّبِیِّ ﷺ ‘صحیح البخاری، باب الذکر بعد الصلوٰة،رقم:۸۴۱
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںلوگ فرض نمازوں سے فراغت کے وقت بآواز بلند ذکر کرتے تھے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَ فِیهِ دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ الجَهرِ بِالذِّکرِ عَقِبَ الصَّلَاةِ ‘فتح الباری: ۲؍۳۲۵
’’اس حدیث میں نماز کے بعد جہری ذکر کا جواز ہے۔‘‘ لیکن
ذکر بہت اونچی آواز سے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ’’صحیح بخاری کی دوسری حدیث میں ہے:
’ اِربَعُوا عَلٰی اَنفُسِکُم، فَاِنَّکُم لَا تَدعُونَ اَصَمَّ، وَ لَا غَائِبًا۔‘… الحدیث"صحیح البخاری، بَابُ مَا یُکرَهُ مِن رَفعِ الصَّوتِ فِی التَّکبِیرِ ،رقم:۲۹۹۲
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! مرعاۃ المفاتیح (۱؍۷۱۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب