السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے یہاں کے حنفی بریلوی ہر نماز کے بعد جو تین دفعہ اونچی آواز سے کلمہ پڑھتے ہیں کیا وہ حدیث سے ثابت ہے؟ کیا اس کے متعلق مسند امام اعظم میں بھی کچھ لکھا ہے۔ تفصیل سے جواب دیں کیونکہ میں نے حصن حصین میں نماز کی دعاؤں کے بارے میں پڑھا تھا جو کہ نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ اس میں امام جزری نے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذاہبِ اربعہ اس بات پر متفق ہیں، کہ فرض نماز کے بعد ذکر اذکارسِرّی ہونا چاہیے ۔ امام ابن بطال وغیرہ فرماتے ہیں: ’ أَصحَابُ المَذَاهِبِ المَتبُوعَةِ، وَ غَیرِهِم مُتَّفِقُونَ عَلٰی عَدمِ استِحبَابِ رَفعِ الصَّوتِ بِالتَّکبِیرِ، وَالذِّکرِ ‘المرعاة:۷۱۶/۱
’’مروجہ مذاہب ذکر و تکبیر کی آواز بلند نہ کرنے پر متفق ہیں۔‘‘
اسی طرح ’’مشکوٰۃ‘‘ کے حواشی میں علامہ ملا علی قاری حنفی سے منقول ہے :
’ نَصَّ بَعضُ عُلَمَائِنَا، بِأَنَّ رَفعَ الصَّوتِ فِی المَسَاجِدِ حَرَامٌ ، وَ لَو بِذِکرٍ‘
یعنی ہمارے بعض علماء نے تصریح کی ہے کہ مسجدوں میں آواز بلند کرنا حرام ہے۔ اگرچہ اﷲ کا ذکر کرنا ہی مقصود کیوں نہ ہو۔
لیکن راجح بات یہ ہے، کہ اذکارِ مسنونہ کاجہر غیر مفرط(یعنی آہستہ آواز) کے ساتھ ذکر کا جواز ہے۔ لیکن اجتماعی شکل و صورت میں نہیں۔ جس طرح کہ اہل بدعت کی عادت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!مرعاۃ المفاتیح(۷۱۶/۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب