سوال: جنابت اور حیض کی حالت میں مسلمان مرد اور عورت قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: حالت جنابت میں قرآن کی تلاوت دیکھ کر یا زبانی جائز نہیں ہے جبکہ حالت حیض میں قرآن کی زبانی تلاوت یا مصحف کو چھوئے بغیر تلاوت راجح قول کے مطابق جائز ہے۔ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: سوال؛ كيا عورت دوران حيض قرآن مجيد كى تلاوت كر سكتى ہے ؟ الحمد للہ: اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ اختلافى ہے: جمہور فقہاء كرام حالت حيض ميں قرآن مجيد كى تلاوت كى حرمت كے قائل ہيں، اس ليے عورت حيض ميں تلاوت نہيں كر سكتى، اس سے صرف ذكر و اذكار اور دعاء مستثنى ہے جس سے تلاوت كا قصد نہ ہو، مثلا بسم اللہ الرحمن الرحيم، انا للہ و انا اليہ راجعون، ربنا آتنا فى الدنيا حسنۃ و فى الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار الخ اس كے علاوہ دوسرى دعائيں جو قرآن مجيد ميں وارد ہيں وہ عمومى ذكر ميں شامل ہيں۔ فقہاء نے ممانعت كے كئى ايك امور اور دلائل بيان كيے ہيں: 1 - يہ عورت جماع سے جنابت والے كے حكم ميں ہے كہ دونوں پر غسل فرض ہوتا ہے، اور حديث ميں ثابت ہے كہ: على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں قرآن مجيد كى تعليم ديا كرتے تھے، اور جنابت كے علاوہ كوئى اور چيز انہيں ايسا كرنے سے نہيں روكتى تھى " سنن ابو داود ( 1 / 281 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 146 ) سنن نسائى ( 1 / 144 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 207 ) مسند احمد ( 1 / 84 ) صحيح ابن خزيمۃ ( 1 / 104 ) امام ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، اور حافظ ابن حجر كہتے ہيں: حق يہى ہے كہ يہ حسن كے درجہ كى ہے اور قابل حجت ہے۔ 2 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" حائضہ عورت اور جنبى شخص قرآن ميں سے كچھ بھى نہ پڑھے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنى ( 1 / 117 ) سنن البيھقى ( 1 / 89 )۔
ليكن يہ حديث ضعيف ہے كيونكہ اسماعيل بن عياش حجازيوں سے روايت كرتے ہيں، اور اس كا حجازيوں سے روايت كرنا ضعيف ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث كا علم ركھنے والوں كے ہاں بالاتفاق يہ حديث ضعيف ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 460 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 195 ) اور التلخيص الحبير ( 1 / 183 )۔
اور بعض اہل علم حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت جائز قرار ديتے ہيں، امام مالك كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اختيار كيا اور امام شوكانى نے راجح قرار ديا ہے، انہوں نے كئى ايك امور سےاستدلال كيا ہے:
١ - اصل ميں اس كا جواز اور حلت ہى ہے حتى كہ اس كى ممانعت ميں كوئى دليل مل جائے، ليكن ايسى كوئى دليل نہيں ملتى جو حائضہ عورت كو قرآن كى تلاوت سے منع كرتى ہو۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہيں ملتى۔
اور ان كا كہنا ہے: يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قرآن كى تلاوت سے منع نہيں كيا، جس طرح كہ انہيں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہيں فرمايا۔
2 - اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد كى تلاوت كا حكم ديا اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے والے كى تعريف كى اور اسے عظيم اجروثواب دينے كا وعدہ فرمايا ہے، چنانچہ اس سے منع اسى وقت كيا جا سكتا ہے جب كوئى دليل مل جائے، ليكن كوئى دليل ايسى نہيں جو حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرتى ہو، جيسا كہ بيان بھى ہو چكا ہے۔
3 - قرآن مجيد كى تلاوت منع كرنے ميں حائضہ عورت كا جنبى پر قياس كرنا صحيح نہيں بلكہ يہ قياس مع الفارق ہے، كيونكہ جنبى شخص كے اختيار ميں ہے كہ وہ اس مانع كو غسل كر كے زائل كر لے، ليكن حائضہ عورت ايسا نہيں كر سكتى، اور اسى طرح غالبا حيض كى مدت بھى لمبى ہوتى ہے، ليكن جنبى شخص كو نماز كا وقت ہونے پر غسل كرنے كا حكم ہے۔
4 - حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرنے ميں اس كے ليے اجروثواب سے محرومى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى بنا پر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ بھول جائے، يا پھر اسے تعليم كے دوران قرآن مجيد پڑھنے كى ضرورت ہو۔
مندرجہ بالا سطور سے حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كے جواز كے قائلين كے دلائل كى قوت ظاہر ہوتى ہے، اور اگر عورت احتياط كرتے ہوئے قرآن مجيد كى تلاوت صرف اس وقت كرے جب اسے بھول جانے كا خدشہ ہو تو اس نے محتاط عمل كيا ہے۔
يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ جو كچھ اوپر كى سطور ميں بيان ہوا ہے وہ حائضہ عورت كے ليے زبانى قرآن مجيد كى تلاوت كے متعلق ہے۔
ليكن قرآن مجيد ديكھ كر تلاوت كرنے كا حكم اور ہے، اس ميں اہل علم كا راجح قول يہ ہے كہ قرآن مجيد سے تلاوت كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہيں چھوتا ﴾.
اور اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے:
" پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے "
موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 )۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
شہرت كے اعتبار سے علماء كى ايك جماعت نے اس حديث كو صحيح كہا ہے۔
اور امام شافعى كہتے ہيں: ان كے ہاں ثابت ہے كہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط ہے.
اور ابن عبد البر كہتے ہيں:
سيرت نگاروں اور اہل معرفت كے ہاں يہ خط مشہور ہے اپنى شہرت كى بنا پر يہ اسناد سے مستغنى ہے، كيونكہ لوگوں كا اس خط كو قبوليت دينا تواتر كے مشابہ ہے. اھـ
اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كےساتھ الٹائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى ہے۔