السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شنید ہے کہ بعض کتب فقہ میں مندرج ہے کہ اگر کوئی نمازی فرض یا نفل نماز پڑھ رہا ہو۔ تشہد اخیری میں حدث ہو جائے یعنی وضو ٹوٹ جائے تو اس کی نماز مکمل ہو جاتی ہے اور اُسے دوبارہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا یہ سچ ہے اور کس حد تک قرآن و سنت سے یہ مسئلہ مطابقت رکھتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقہ حنفی میں یہ مسئلہ معروف ہے، کہ تشہد کے اخیر میں مصلّی(نمازی) سے اگر کوئی فعل نماز کے منافی صادرہوجائے، تو وہ نماز سے فارغ سمجھا جائے گا ۔اس کی بناء انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت پر رکھی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:
’ اِذَا قُلتَ هٰذَا: وَقَضَیتَ هٰذَا ۔ فَقَد قَضَیتَ صَلَاتَكَ ۔ إِن شِئتَ أَن تَقُومَ، فَقُم ۔ وَ إِن شِئتَ أَن تَقعُدَ ۔ فَاقعُد۔ رَوَاهُ أَحمَدُ، وَ أَبُودَاؤدُ، وَالدَّارَقُطَنِیّ۔ وَ قَالَ: الصَّحِیحُ أَنَّ قَولَهٗ: ’ إِذَا قَضَیتَ هٰذَا، فَقَد قَضَیتَ صَلَاتَكَ، مِن کَلَامِ ابنِ مَسعُودٍ (رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ )۔ وَ فَصَّلَهٗ شَبَابَةُ، عَن زُهَیرٍ۔ وَ جَعَلَهُ مِن کَلَامِ ابنِ مَسعُودٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ وَ قَولُهٗ أَشبَهُ بِالصَّوَابِ مِمَّن أَدرَجَهُ. فَقَد اتَّفَقَ مَن رَوٰی تَشهُّدَ ابنِ مَسعُودٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ عَلٰی حَذفِهٖ‘ اَلمُنتَقٰی : باب فی کون السلام فرَِیضة
یعنی جب تو یہ کہہ دے اور اسے پورا کرے، تو تُو نے نماز مکمل کر لی۔ اگر اٹھنا چاہتا ہے، تو اُٹھ کھڑا ہو اور اگر بیٹھنا چاہتا ہے، تو بیٹھا رہے۔ احمد ، أبوداؤد اور دارقطنی نے اسے روایت کیا ہے۔’’دارقطنی ‘‘نے کہا، کہ صحیح بات یہ ہے، کہ ’’إِذَا قَضَیتَ هٰذَا، فَقَد قَضَیتَ صَلَاتَكَ‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام ہے اور شبابہ نے زہیر سے جداگانہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کلام سے بیان کیا ہے اور صاحب ’’المنتقٰی‘‘ فرماتے ہیں کہ زیادہ درست بات یہی ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جنھوں نے اسے ’’مدرج‘‘ قرار دیا ہے اور جن لوگوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو ذکر کیا ہے، سب اس کے حذف پر متفق ہیں۔
بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے أبو الأحوص کے طریق سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ جو کچھ بیان کیا ہے اس زیادتی کے مخالف ہے۔ فرمایا:
’مِفتَاحُ الصَّلٰوةِ التَّکبِیرُ ، وَانقِضَائُهَا التَّسلِیمُ۔ إِذَا سَلَّمَ الاِمَامُ فَقُم، إِن شِئتَ‘
’’نماز کا آغاز تکبیر سے ہے اور اختتام تسلیم سے۔ جب امام سلام پھیرے اگر تو چاہتا ہے ،تو کھڑا ہوجا۔ ‘‘
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’المعرفۃ‘‘ میں کہا ہے ۔ حُفَّاظ اس طرف گئے ہیں، کہ یہ زہیر بن معاویہ کا وَہم ہے۔
اور امام نووی رحمہ اللہ نے ’’الخلاصۃ‘‘ میں فرمایا:’’اُتَّفَقَ عَلٰی أَنَّھَا مُدرَجَۃ‘‘یعنی سب حفاظ اس بات پر متفق ہیں، کہ یہ جملہ ’’مُدرَج‘‘ ہے۔ یعنی کسی راوی نے اپنی طرف سے اس کو حدیث میں داخل کردیا ہے۔اس کی مؤید ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایک روایت مرفوعاً مروی ہے۔
’اِذَا أَحدَثَ الرَّجُلُ۔ وَ قَد جَلَسَ فِی آخِرِ صَلَاتِهٖ قَبلَ أَن یُّسَلِّمَ، فَقَد جَازَت صَلَاتُهٗ۔ ‘ (رواه ابوداؤد) سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی الرَّجُلِ یُحْدِثُ فِی التَّشَهُّدِ،رقم:۴۰۸
’’یعنی آدمی جب نماز کے اخیرمیں سلام پھیرنے سے پہلے بے وضو ہو جائے ،تو اس کی نماز درست ہے۔‘‘ لیکن اس کی سند کمزور ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’ لیس إسناده بذاك القوی۔‘
اس میں راوی عبد الرحمن (ناقابلِ اعتماد) ،جب کہ دوسری طرف فقہاء و محدثین اور اصحاب مذاہب متبوعہ اس طرف گئے ہیں، کہ نماز سے فراغت کے لیے سلام پھیرنا ضروری ہے۔ ان کا استدلال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے۔
’ وَتَحلِیلُهَا التَّسلِیمُ ‘ رواه الخمسة اِلَّا النَّسَائِی۔ وَقَالَ التِّرمَذِیُّ: هٰذَا أَصَحُّ شَیئٍ فِی هٰذَا البَابِ، وَ أَحسَنُ۔‘ سنن أبی داؤد،بَابُ الْإِمَامِ یُحْدِثُ بَعْدَ مَا یَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّکْعَةِ،رقم:۶۱۸
اگرچہ اس روایت میں بھی کلام ہے، لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ اس کے طُرق کے بارے میں فرماتے ہیں:
’ وَهٰذِهِ الطُّرُقُ یُقَوِّی بَعضُهَا بَعضًا۔ فَیَصلُحَ الحَدِیثُ لِلاِحتِجَاجِ بِهٖ۔‘ نیل الأوطار:۱۷۹/۳
’’حدیث ہذا کے بعض طُرق بعض کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث قابلِ حجت ہے۔‘‘
اور علامہ البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ بحث کے اخیر میں فرماتے ہیں:
’ لٰکِنَّ الحَدِیثَ صَحِیحٌ بِلَا شَكٍ۔ فَإِنَّ لَهٗ شَوَاهِدَ یَرقٰی بِهَا إِلٰی دَرَجَةِ الصِّحَّةِ‘إرواء الغلیل:۹/۲
’’حدیث ہذا بدونِ شک صحیح ہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں، جو اس کو درجۂ صحت تک پہنچا دیتے ہیں۔ ‘‘
دلائل کے اعتبار سے یہی مسلک راجح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب